بر الوالدين للطرطوشي سے منتخب فوائد… (١)
✿۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر والدین منع کر دیں تو ان کی اجازت کے بغیر (نفلی) حج بھی نہ کرے، الا یہ کہ فرضی حج ہو تو ان کی اجازت کے بغیر چلا جائے۔
یہ امام مالک رحمہ اللہ کی طرف سے نص ہے کہ نفلی عبادت چھوڑنے میں والدین کی اطاعت واجب ہے۔
(صفحة : ١٧، وانظر : النوادر والزيادات : ٢/ ٣٢١)
✿۔ علامہ غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اسی طرح آپ والدین کی اجازت کے بغیر مباح یا نفلی سفر پر نہیں جا سکتے ۔۔۔ حج میں جلدی کرنا نفل ہے کیونکہ یہ واجب علی التاخیر ہے اور طلب علم کے لیے جانا بھی نفل ہے الا یہ کہ آپ نماز، روزے کا فرض علم حاصل کرنا چاہتے ہوں اور آپ کے علاقے میں اس کی تعلیم دینے والا کوئی نہ ہو۔ (صفحة : ١٨، وانظر : إحياء علوم الدين : ٢/ ٢١٨)
✿۔ علامہ طرطوشی فرماتے ہیں : ’’میرے نزدیک فرض چھوڑنے یا اس کا علم ترک کرنے میں والدین کی اطاعت نہیں ہو گی، اسی طرح سنت راتبہ جیسے باجماعت نماز کے لیے مسجد میں جانا، فجر کی سنتیں یا وتر وغیرہ کو ہمیشہ چھوڑنے کا والدین کہیں تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی، باقی رہے محض نوافل تو کتاب و سنت اور آثار سلف اسی بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کی اطاعت فرض ہے اور نفل چھوڑ دیے جائیں گے، یہاں تک کہ اگر وہ نماز کے اول وقت میں بلائیں تو ان کی اطاعت واجب ہو گی اگرچہ بندے کی اول وقت کی فضیلت چلی ہی کیوں نہ جائے۔‘‘ (صفحة : ٢٠)
✿۔ معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ (میرے والد) سیدنا جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ جنگ کو جانے کا ہے جبکہ میں آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آپ کی والدہ ہیں؟‘‘ کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: ’’ان کے پاس ہی رہ (کر خدمت کریں)۔ جنت ان کے پاؤں تلے ہے۔‘‘ (صفحة : ٣١، سنن النسائي : ٣١٠٦ وسنده صحیح)
✿۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میں آپ کے پاس ہجرت پر بیعت کے لیے حاضر ہوا ہوں اور اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا ’’ان کے پاس جا اور جیسے انہیں رلا کر آیا ہے ایسے ہی انہیں ہنسا (اور خوش کر)‘‘ (سنن أبي داود : ٢٥٢٨، وانظر : مسند أحمد : ٦٩٠٩ وسنده صحیح)
✿۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا۔’’کیا یمن میں آپ کا کوئی عزیز بھی ہے؟‘‘ اس نے کہا: میرے والدین ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا ’’کیا انہوں نے آپ کو اجازت دی ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ان کے پاس واپس جائیں اور ان سے اجازت طلب کریں، اگر وہ اجازت دے دیں تو جہاد کریں ورنہ ان کی خدمت کریں۔‘‘ (سنن أبي داود : ٢٥٣٠ وسنده حسن)
✿۔ زین العابدین، علی بن الحسین رحمہ اللہ کے متعلق مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا: آپ لوگوں میں سب سے زیادہ والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں لیکن ہم نے کبھی آپ کو والدہ کے ساتھ ایک برتن میں کھانا کھاتے نہیں دیکھا تو فرمانے لگے : میں ڈرتا ہوں کہ میرا ہاتھ اس چیز کی طرف بڑھ جائے جس پر میری والدہ کی نظر ہو تو میں ان سے بد سلوکی نہ کر بیٹھوں۔ (صفحة : ٣٨، الكامل لابن المبرد : ١/ ٩١ واللفظ له)
✿۔ جعفر صادق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کو سجدے میں یہ دعا کرتے سنا : اے اللہ! (میرے والد) زبیر بن عوام اور (میری والدہ) اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کو معاف کر دے۔ (صفحة : ٣٨، شعب الإيمان للبيهقي : شعب الإيمان – ط الرشد : ١٠/‏٢٩٧ واللفظ له، وسنده حسن)
✿۔ فضل بن یحیی سب سے بڑھ کر اپنے والد سے حسن سلوک کرنے والے تھے، ان کی اپنے والد کے ساتھ اچھے سلوک کی انتہا یہ تھی کہ وہ دونوں قید خانے میں تھے اور ان کے والد یحیی گرم پانی سے ہی وضو کرتے تھے، جیلر نے ایک ٹھنڈی رات لکڑیاں جیل میں لانے سے روک دیں، جب یحیی سو گئے تو ان کے بیٹے فضل نے پتیلی لے کر پانی سے بھری اور (گرم کرنے کے لیے) اسے چراغ کے قریب کر کے ہاتھ میں لیے صبح تک اس کے پاس کھڑے رہے۔ (صفحة : ٣٩، المجالسة للدينوري : ٧/ ٣٢٠)
✿۔ عامر بن عبد اللہ بن زبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میرے والد فوت ہوئے تو میں ایک سال تک اللہ تعالی سے ان کی بخشش کی دعا ہی کرتا رہا۔‘‘ (صفحة : ٤٠، التعازي لأبي الحسن المدائني : ٤٢ واللفظ له، وسنده صحیح، وينظر : تاریخ دمشق لابن عساکر : ٢٨/ ٢٤٣، المجالسة للدينوري : ١٧١٤)
✿۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ جس نے اپنے والد کی عزت کی اس کی عمر لمبی ہو گی، جس نے اپنی والدہ کا احترام کیا وہ ہمیشہ خوشیاں دیکھے گا اور جس نے اپنے والدین کی طرف تند نظروں سے بھی دیکھا تو اس نے ان سے بد سلوکی کی۔ (صفحة : ٤٠)
✿۔ معروف امام حیوہ بن شریح رحمہ اللہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ اپنے حلقۂ تدریس میں لوگوں کو تعلیم دینے بیٹھتے، اس دوران ان کی والدہ کہتیں : حیوہ! اٹھ کر مرغیوں کو دانا ڈالو۔ تو وہ درس چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے۔ (صفحة : ٤٠)
✿۔ طرطوشی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے فقیہ ابو عبد اللہ بن مسلم اصولی نے بتایا کہ جب میں نے یمن کے سفر کا ارادہ کیا تو میری امی جان نے مجھے جو وصیتیں کی تھیں، ان میں سے یہ بھی تھی کہ میں آپ سے وعدہ لیتی ہوں، ہر وہ رات جس میں چاند آسمان کے بالکل وسط میں آ جاتا ہے آپ غور سے اس پر اپنی نظریں ڈالنا اور میں بھی آپ کی محبت میں اسے دیکھا کروں گی، ہوسکتا ہے کہ آپ کی نظریں میری نظر سے ٹکرا جائیں اور میرے دل کو سکون ملے۔ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سے کیا یہ وعدہ پورا کیا اور میں ایسا کیا کرتا تھا۔ (صفحة : ٤٠)

حافظ محمد طاہر