سوال

ایک شخص فوت ہوگیا ہے، اس کی اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں ہیں، والد کی زندگی میں والد کی دکان میں بیٹوں نے بچپن سے لے بڑے ہونے تک والد کے ساتھ کام کیا ہے، اب جب والد فوت ہوگیا ہے تو کیا عام اصول “للذکر مثل حظ الانثین” کے تحت وراثت تقسیم ہوگی ؟ یا بیٹوں کو دکان میں کام کرنے کی وجہ سے زیادہ حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

بیٹوں نے جو دکان میں کام کیا ہے، وہ بطور عامل(کام کرنے والے)  کے کیا ہے اور اسی سے وہ پیسے بھی لیتے تھے اپنے گھر کا خرچہ وغیرہ    بھی چلاتے تھے۔ لہذا یہ مال اور دکان باپ کی ہے اور باپ فوت ہو جائے تو پھر بمطابق شریعت میراث کی تقسیم ہوگی اور اسی ترتیب سے جو اللہ تعالی نے فرما دیا:

“لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ‌”.[النساء: 11]

’’مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے‘‘۔

اور یہ بیٹے عامل ہی تھے۔ سوال میں جس طرح اجمال ہے اسی طرح اس کے جواب کے اندر بھی اتنا ہی اجمال ہے۔ بیٹے کام ہی کرتے تھے اور کام کرنے سے بندہ مالک نہیں بنتا ورنہ پھر تو عام مزدور بھی مالک تصور کیے جائیں گے اور ان کو بھی حصہ دینا پڑے گا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ