واللہ! پاکستان ہمارا محبوب ہے

ہم آزاد فضاؤں کے پنچھی کیا جانیں کہ زندان کی اذیتیں کس قدر جان لیوا ہوتی ہیں، آزادی کی بے کراں وسعتوں میں اڑان بھرنے والے پنکھ پکھیرو کیا سمجھیں کہ غلامی کی زنجیریں سانسوں کو کس قدر تلخ اور دشوار بنا دیتی ہیں۔ ہماری تو ہلدی لگی نہ پھٹکڑی اور آنکھ کھولتے ہی یہ پاک وطن ہمیں مل گیا۔ ذرا اپنے آبا سے سوال کرو کہ انھوں نے اس وطن کے حصول کے لیے کتنے صدمے اور آلام برداشت کیے، بلکتی اور خوں چکیدہ آہوں کی بازگشت سے ہمارے اجداد کیسے گزر آئے تھے؟ ذرا اپنے آبا و اجداد کے دُکھتے بدن کی ایک ایک اینٹ سے پوچھو کہ یہ آزاد فضائیں کس طرح میسر آئی ہیں، ان ہواؤں اور فضاؤں میں سانس لینے کے لیے کیسی کیسی آبلہ پائی برداشت کی گئی۔ انھوں نے کیسے کیسے لق و دق درد سہے، انھوں نے سنگلاخ ہجرتوں کے طویل سلسلے پاٹ کر یہ ملک حاصل کیا۔ آج ہماری زبانوں کو کاسنی سے لب و لہجے، زندگی گزارنے کے سنہرے زاویے، یہ بلوریں سویرے اور یہ فصلِ لالہ و گل ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا فروزاں اور تابناک ثمر ہیں۔ آزادی کی اس نعمتِ غیر مترقبہ کی افادیت و اہمیت بھارت میں مقیم 28 کروڑ مسلمانوں سے پوچھ لیجیے، وہ مسلمان چیخ چیخ کر بتلائیں گے کہ آج ہندو دہشت گرد ہماری مساجد میں خنزیر کاٹ کر پھینک دیتے ہیں، وہاں کے مسلمان اپنی دل سوز بپتا سنائیں گے کہ آج بھارت میں مساجد اور مدارس پر حملوں نے ان کی زندگی اجیرن بنا کررکھ دی ہے۔ محض گائے ذبح کرنے کے شبہے میں ان مسلمانوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔وہ تمام بھارتی مسلمان جن کی عبادات، روز گار، کاروبار اور تعلیم کے راستے میں رخنے حائل کر دیے گئے۔ غم زدہ اور نوحہ کناں ہیں۔ آزادی کتنا بڑا انعامِ خداوندی ہے، ذرا پوچھ کے دیکھو اس بھارت کے مسلمانوں سے جہاں مذہب کے نام پر سب سے زیادہ انتشار پھیلا دیا گیا ہے۔بیورو ریسرچ سنٹر، عورتوں پر ظلم و ستم، فرقہ وارانہ تشدد، مذہبی منافرت اور سماج دشمن عناصر کی بنا پر بھارت کو مذہب کے نام پر انتشار پھیلانے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک قرار دے چکا ہے۔ آزاد بہاروں اور گل زاروں کی قدر و قیمت پوچھو اس بھارت کے مسلمانوں سے جو اس وقت بجرنگ دَل اور بی جے پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کو پال پوس رہا ہے اور ان تنظیموں کو دہشت گردی پر انگیخت دینے کے لیے انھیں اسلحہ و بارود فراہم کرتا ہے۔ داعش کے منہ میں فیڈر بھی بھارت دیتا رہا اور اس کا مطلب بڑا واضح تھا کہ مسلمان کہیں بھی ہوں ان کی سانسیں پی لی جائیں۔ کنفلکٹ آرمانٹ ریسرچ ایک ایسا دارہ ہے جو دنیا بھر میں فوجی ہتھیاروں کی سپلائی اور اس کے ذمہ دار ممالک پر نظر رکھتا ہے۔صرف پانچ سال قبل کی اس کی رپورٹ کے مطابق داعش 51 کمپنیوں کا اسلحہ اور بارود استعمال کر رہی تھی، جو بیس ممالک سے تعلق رکھتا ہے، جن میں روس، امریکا اور ہالینڈ بھی شامل ہیں لیکن بھارتی ادارے دوسرے بڑے سپلائر ہیں۔
سوال کیجیے اپنے آبا سے کہ انھوں نے آزادی کے حصول کیے لیے مالٹا کی اسیری کس طرح کاٹی؟ جایئے بالا کوٹ اور ان پہاڑوں سے پوچھیے کہ کس طرح آزادی حاصل کرنے کے لیے 1300 سرفروش مجاہدین نے اپنے لہو سے انہیں گل و گل زار بنا دیا تھا۔ کتنے گم نام لوگ آزادی کی راہوں میں کھو گئے۔ کتنی سہاگنوں کے سہاگ اجاڑ دیے گئے۔ پوچھ لیجیے تاریخ کے اوراق سے کہ محمود غزنوی نے سومنات کیوں توڑا؟ سوال کیجیے اوراق گذشتہ سے کہ ٹیپو سلطان نے اپنا سرخم کیوں نہ کیا۔ تاریخ چلا اٹھے گی کہ یہ دو قومی نظریہ تھا جس نے انھیں ہمہ قسم کی قربانیاں دینے پر مجبور کر دیا، جس نے نہتے افراد کو مسلح جتھوں کے سامنے کھڑا کر دیا، اس لیے کہ کسی بھی قوم کا طرہ ء امتیاز اس کے نظریات ہی ہوتے ہیں اور نظریات کے بغیر کوئی بھی قوم اعلا و ارفع مقام حاصل کر ہی نہیں سکتی۔ اسی دو قومی نظریے کو ختم کرنے کے لیے ہندو اور انگریزوں نے سازشوں کے جال بچھائے۔ لالہ دھنپ رائے کہتا تھا کہ ”ہندوستان میں سوائے ہندو راج کے کوئی راج قائم نہیں رہ سکتا۔ ایک دن آئے گا جب ہندوستان کے سب مسلمان شدھی ہو کر آریہ سماج میں ضم ہو جائیں گے اور ہندوستان میں صرف ہندو رہ جائیں گے“۔ اگر آپ تاریخ کے صفحات کو پھرولنا نہیں چاہتے تو کشمیر، فلسطین، برما، عراق اور شام کے بلکتے مسلمانوں سے پوچھ لیجیے کہ آزادی کے حصول کے لیے کیسے کیسے جتن طویل عرصے تک کرنا پڑتے ہیں۔ کیسے کیسے روگ پال کر قربانیاں دی جاتی ہیں، ہم جن آزاد، پرکیف اور مسرور فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں یہ ایک نعمت گراں مایہ ہے، سو اس وطن کے ساتھ محبتوں اور عقیدتوں کے انبار لگا دیجیے، واللہ! پاکستان ہمارا محبوب ہے یہی ہمارا مطلوب ہے ہم اس کے دیوانے ہیں۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
پاکستان کو ٹیڑھی نظروں سے دیکھنے والے قریب اور بعید کے سارے ہمسائے اچھی طرح سن لیں کہ ہم اپنے اس پیارے وطن کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ محبت، جنوں اور دیوانگی میں ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

(انگارے۔ حیات عبداللہ)

یہ بھی پڑھیں: ماتم کی شرعی حیثیت!