سوال (4012)

معراج پر آپ جا رہے تھے راستے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر مبارک پر ٹھرے وہاں آپ نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس سے دو باتیں پتہ چلتی ہیں.
یعنی انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور دوسری نبی پاک کو علم ہے کہ زمین کے اندر کیا ہو رہا ہے آسمان پر کیا ہو رہا ہے اور یہ سب اللّٰہ کا فضل ہے جو اس نے اپنے حبیب کو تمام جہانوں کا مالک بنایا ہے۔
اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے آپ کے نبی ہونے کی گواہی دی ہے، پھر آپ مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے ہیں، وہاں پر تمام انبیاء کرام نماز کے لیے موجود تھے، ان کی امامت نبی پاک نے کروائی ہے، نمازیوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی موجود تھے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ اللّٰہ نے انبیاء کو اختیار دیا کہ وہ جہاں مرضی آ جا سکتے ہیں، پھر سفر شروع ہوا وہی انبیاء نے آسمانوں پر بھی نبی پاک سے ملے، ساتویں آسمان پر پھر موسیٰ علیہ السلام ملے، یہ سب اللّٰہ کا فضل ہے اور اللّٰہ ہی قدرت رکھنے والا ہے یہ اس کی مرضی ہے وہ جس کو چاہے جو مرضی اختیار دے۔
یہ واقعہ معراج میں سارا بیان موجود ہے احادیث مبارکہ کی کتابوں میں بھی یہی موجود ہے۔

جواب

اسراء و معراج عقل سے ماوراء ہیں، یہاں ان امور میں عقل کو داخل کرنا ہے، اگر ان کو انسان عقل سے تولے تو ان کا انکار کردے گا، کیونکہ آج بھی کوئی انسان مکہ سے بیت المقدس جائے تو اس کا ایک گھنٹہ تو مکہ سے جدہ ائیرپورٹ آتے ہوئے لگے گا، آپ سیدھا جہاز پر بیٹھیں تب بھی آپ کو وہاں ائیرپورٹ تک پہنچنے کے لیے چھ گھنٹے درکار ہونگے، ائیرپورٹ سے اترنے کے بعد بھی ایک گھنٹہ بیت المقدس تک پہنچنے میں لگے گا، یہ تو سیدھے آٹھ گھنٹے ہوگئے ہیں، آنے جانے کا شمار کریں تو سولہ گھنٹے ہوگئے ہیں، دنیا کی کوئی رات سولہ گھنٹے کی نہیں ہوتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس سے بھی آگے سفر فرمایا تھا، زمین سے لے کر پہلے آسمان تک فاصلہ پانچ سو سال ہے، پھر ایک آسمان سے دوسرے آسمان کا فاصلہ پانچ سو سال ہے، یہ تین ہزار پانچ سو سال ہوگئے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسراء و معراج انسانی عقل سے ماوراء ہیں۔
جو سوال ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا ہے، وہ قبر میں نماز پڑھ رہے تھے، وہ زندہ ہیں، یہ ہم دنیاوی طور پر کہہ رہے ہیں، اگر اس کو ہم دنیاوی طور پر لینا ہے تو باقی چیزوں کو بھی دنیاوی طور پر لیں، ان کی عقلی توجیہات تلاش کریں، اور وہ کائنات کا کوئی چیز نہیں کر سکتا ہے، ان امور میں اگر کوئی عقل کو داخل کرے گا تو وہ یا تو ان امور کا انکار کردے گا، یا ان امور میں کوئی چیز اپنی طرف سے داخل کرے گا، جس طرح اس سوال میں ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کو دیکھا ہے تو انبیاء زندہ ہیں، اس لیے تمام امور میں ہمیں شریعت تک محدود رہنا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

سائل: شیخ صاحب وہ بندہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھیں اللہ تعالیٰ قادر ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے انبیاء کو زندہ کردیا ہے، ہم مانتے ہیں کہ انبیاء کی برزخی زندگی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ قادر ہے، اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیاوی باتیں سنا سکتے ہیں؟
جواب: مندرجہ ذیل فرامین بھی اللہ تعالیٰ کی ہیں۔

(1) : “وَمَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِى الۡقُبُوۡرِ” [سورۃ فاطر: 22]

«اور تو ہرگز اسے سنانے والا نہیں جو قبروں میں ہے»

(2) : “وَمِنۡ وَّرَآئِهِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰى يَوۡمِ يُبۡعَثُوۡنَ” [المؤمنون: 100]

«اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے، ایک پردہ ہے»

(3) : وَلَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ قُتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَمۡوَاتًا‌ؕ بَلۡ اَحۡيَآءٌ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ يُرۡزَقُوۡنَۙ [آل عمران: 169]

«اور تو ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل کر دیے گئے، ہرگز مردہ گمان نہ کر، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں»
معروف روایت کے مطابق یہ آیت سیدنا عبد اللہ بن حرام رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سنانے پر قادر نہیں ہے، لیکن سنانے کی دلیل بھی ہونی چاہیے، مسئلہ یہی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ