سوال (3978)

“ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى الَّيْلِ” اس آیت کی وضاحت کریں، ایک شیعہ حضرات نے کہا ہے کہ آپ روزہ جلدی افطار کرتے ہو؟

جواب

دن کا ختم ہونے اور رات کے شروع ہونے کا تعلق رات کے ساتھ ہے، سورج غروب ہوتے ہی رات شروع ہو جاتی ہے، آیت میں یہ ہے کہ رات تک روزے کو پورا کرو، یہ نہیں ہے کہ رات میں روزے کو پورا کرو، یہ لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے، حکم یہ ہے کہ جیسے ہی سورج غروب ہو روزے دار کو روزہ افطار کرنا چاہیے۔ باقی وقفے کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

وقت سے پہلے روزہ افطار کرنے کی وعید والی روایت کا مصداق اہلحدیث کو قرار دینا، یہ دجل ہے۔
[صحیح ابن خزیمہ: 1986، سندہ، صحیح]
1 اس حدیث میں ہے کہ وہ وقت سے پہلے افطار کرتے ہوں گے، جبکہ اہلحدیث تو وقت پر افطار کرتے ہیں۔ جب گھڑیاں موجود ہیں اور ایک ایک سیکنڈ کا بھی پتا چل جاتا ہے کہ کتنے بج کر کتنے منٹ اور کتنے سیکنڈ پر سورج غروب ہوتا ہے (جیسا کہ ہمارے شہر کے کیلنڈر میں منٹوں کے ساتھ سیکنڈ بھی لکھے ہوئے ہیں) تو پھر احتیاط والی تو بات ہی جہالت ہے۔ ہم تو وقت پر افطار کرتے ہیں سنت کے مطابق بغیر ایک لمحہ بھی وقت سے جلدی پر۔ لہذا اہلحدیث تو اس حدیث کے مصداق ہوہی نہیں سکتے۔
2.دوسری بات کہ اسی حدیث میں وضاحت بھی موجود ہے کہ یہ حدیث کن کے بارے میں ہے.

مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُفْطِرُونَ قَبْلَ تَحِلَّةِ صَوْمِهِمْ، فَقَالَ: خَابَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى… [صحيح ابن خزيمة ٣/‏٢٣٧ — ابن خزيمة (ت ٣١١]

لہذا ثابت ہوا کہ یہ حدیث تو یہود و نصاری کے بارے میں ہے جو جان بوجھ کر جلدی کرتے تھے۔
اس حدیث کا مصداق اہلحدیث کو قرار دینا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس فرمان کی تحریف ہے۔ یہ بدبخت رافضی احتیاط والی بات تو فقط روافض کی حمایت کے لیے کررہا ہے جن کے ساتھ یہ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا، الا یہ کہ مرنے سے پہلے اسے توبہ نصیب ہوجائے۔
لہذا افطاری کا وقت ہوتے ہی افطاری کریں جیسا کہ حدیث میں ہے۔ [بخاری: 1957]
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ