خواہشوں کا تعاقب اِس حد تک بھی نہیں کرنا چاہیے کہ انسان خود کو بپھرے سمندر کی موجوں ہی کے حوالے کر دے، دل میں پلتی تمناؤں کو اتنا بھی سَر نہیں چڑھانا چاہیے کہ وہ ہزاروں فٹ گہرے پانیوں کی تاریکیوں پر بھروسا کر بیٹھیں، مَیں اِسے مہم جوئی بھی نہیں کَہ سکتا کہ اِس میں انسانی حیات کو محض خطرات میں گِھر جانے کے امکانات کے سوا کچھ حاصل نہیں ہونا تھا، مَیں اندیشوں سے لدے اِس مہیب سفر کو تفریح کا نام بھی دینے سے قاصر ہوں کہ بارہ ہزار فٹ گہرے پانی کی تاریکیوں میں پھنسے ایک تباہ شدہ بحری جہاز کے ملبے کے نظارے کو کسی طور تفریح نہیں کہنا چاہیے، البتہ مَیں اسے ایک اربوں پتی باپ کی اپنے بیٹے کے ساتھ ایک ایسی انوکھی مَحبّت کا نام ضرور دے سکتا ہوں، جس میں دانائی کی مقدار کم اور والہانہ جذبات کی سطح زیادہ بلند تھی۔اِسے ایک امیر ترین باپ کی اپنے چہیتے بیٹے کے ساتھ چاؤ اور چونچلا نما کسی جذبے کا نام ضرور دیا جا سکتا ہے، اگرچہ بیٹے کے دل میں کئی طرح کے وسوسے اور خدشے پیدا ہو چکے تھے ۔اخبار ” انڈی پنڈنٹ “ کے مطابق سلیمان داؤد اِس خطرناک مہم جوئی سے خوف زدہ تھا، لیکن اس نے مکمل سعادت مندی کے ساتھ اپنے والد کے سامنے سَرِ تسلیم خم کر دیا۔یقیناً ” ساحل سحری نینیتالی “ کے اس شعر جیسے جذبات سلیمان داؤد کے ذہن میں ضرور ہوں گے:
مَیں لَوٹنے کے ارادے سے جا رہا ہوں، مگر
سفر سفر ہے مرا انتظار مت کرنا
یہ حقیقت ہے کہ لاڈ پیار پر مشتمل ایسی ” سیر و سیاحت “ سے گریزپائی اختیار کر لینا ہی مناسب ہوتا ہے، لیکن اب یہ سب بعد کی باتیں ہیں، ایک خون آشام سمندر سب کچھ نگل چکا ہے۔بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں اور گُھپ اندھیروں میں 48 سالہ شہزادہ داؤد اور اس کے 19 سالہ بیٹے سلیمان داؤد کی اندوہ ناک موت پر ہر شخص رنجیدہ اور رنجور ہے۔بے لگام سوشل میڈیا پر جس طرح ٹائٹن حادثے پر منفی تبصرے کیے گئے وہ سب قابلِ مذمّت ہیں، اس لیے کہ جب موت آتی ہے تو انسان خود ہی ایسی غلطیاں کر بیٹھتا ہے جن کا تصور بھی محال ہوتا ہے۔اوشیئن گیٹ کمپنی کے 61 سالہ سی ای او سٹاکٹن رش، 58 برس کے ہمیش ہارڈنگ اور 77 سال کے پال ہینری کی موت کا صدمہ بھی جان کاہ ہے۔راب مک کَیلم نامی ایک ماہر، سٹاکٹن رش کو یہ مشورہ دے چکا تھا کہ وہ اپنے کلائنٹس کی زندگیوں کو خطرے میں مت ڈالے، اُس نے آب دوز کا استعمال اس وقت تک روکنے کا بھی کہا تھا جب تک اسے کوئی خود مختار ادارہ جانچ نہیں لیتا، لیکن راب مک کَیلم کے مشورے کو کبھی در خورِ اعتنا سمجھا ہی نہیں گیا۔ آئیے! اب منظر بدلتے ہیں۔
یہ جنوبی یونان کا ساحل ہے، یہاں بھی انسانی چیخوں، آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سیکڑوں افراد کے سمندر برد ہونے کے دل فگار مناظر دیکھ کر انسانیت تلملا اٹھی ہے، وہی جگر پاش مناظر جن کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔جنوبی یونان کے ساحل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ” مجھے بچاؤ۔۔۔مجھے بچاؤ “ کی سیکڑوں فلک شگاف چیخیں فضا میں بلند ہوتی رہِیں، درجنوں آنکھوں سے بہتے بے بسی کے آنسو، سمندر کی بے رحم موجوں کا مقابلہ نہ کر سکے۔سمندر سے اٹھتی یہ آہیں اور سسکیاں، ریسکیو کا ڈراما کرنے والے کسی شخص کے دل میں ترحمانہ جذبہ پیدا نہ کر پائیں۔بے چارگی میں ڈھلے 750 افراد کے ڈوب جانے کے دل دوز مناظر سب کی آنکھوں میں کھب کر رہ گئے۔ان کی مدد کے لیے آنے والے پتھر دل لوگ، ان کے چیخنے چِلانے کا ہول ناک منظر دیکھتے رہے، وجہ یہ تھی یہ لوگ غیر قانونی طور پر آئے تھے، اس نادانی کی سزا یہ دی گئی کہ انھیں سمندر کی بے رحم اور بپھری موجوں میں غرق ہونے دیا گیا۔میر مہدی مجروح نے کہا تھا:
اپنی کشتی کا ہے خدا حافظ
پیچھے طوفاں ہے سامنے گرداب
ریسکیو اہل کار خود کسی گرداب سے کم ثابت نہ ہوئے، جب تمام سسکیاں سمندر میں خاموش ہونے لگیں تو 104 افراد کو ریسکیو کر لیا گیا، جن میں سے صرف بارہ افراد کا تعلق پاکستان سے ہے، 298 پاکستانی نوجوان کو جان بوجھ کر سمندر برد ہونے دیا گیا۔عالمی طاقتوں کا دوہرا رویّہ، متضاد معیار اور ان کی بد طینتی دلوں میں وحشت کے ساتھ نفرت بھی ضرور پیدا کرتی ہے کہ ایک طرف اربوں پتی پانچ ایسے لوگوں کو بچانے کے لیے ساری توانائی اور ٹیکنالوجی سمندر میں جھونک دی جاتی ہیں کہ جن کے بچنے کے تمام امکانات معدوم ہو چکے تھے مگر دوسری سمت منافرت سے لدے جذبے تھے کہ 750 افراد کی کشتی کے گرد ریسکیو کی ٹیمیں منڈلا کر ان کی چیخوں سے محظوظ ہوتی رہیں۔کاش! انھیں زندہ نکال کر قانونی طور کوئی سزا دے دی جاتی کہ ایسا کرنے سے ان کی جانیں تو بچ جاتیں۔
دو الم ناک حادثے ہونے تھے، سو ہو چکے۔اب ہمیں ان سانحوں سے سبق ضرور حاصل کرنا چاہیے کہ کبھی مغرب، یورپ یا کسی اور مُلک میں جانے کے لیے غیر قانونی طریقہ مت اختیار کریں۔دوسرا سبق بڑا ہی اہم ہے کہ اگر آپ متمول اور ثروت مند ہیں تو ہمیشہ مال و منال کی فراوانی کو لاحاصل، فرسودہ اور نامراد تمناؤں کی تکمیل کے لیے اپنی زندگیوں کو خطرات میں مت ڈالیں کہ زندگی چلی جائے تو کبھی لوٹ کر نہیں آتی اور جن کے پیارے اس طرح پانیوں میں غرق ہو جائیں تو تمام عمر ان کی آنکھیں ان کے لوٹ آنے کی منتظر رہتی ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ وہ کبھی لوٹ کر أ ہی نہیں سکتے۔فراق گورکھپوری کا شعر ہے:
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا