وہ جوان مراکشی لڑکی تھی، امنگوں اور ارمانوں بھرے دل والی، امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے پڑھی ہوئی،جہاں سے پڑھنا دنیا کے کسی بھی فرد کا خواب ہو سکتا ہے۔اسے دنیا کے امیر ترین شخص کی مشہور ترین کمپنی میں جاب مل چکی تھی، ایک ایسی اچھی جاب، جیسی اچھی جاب پانے کیلئے دنیا بس خواب دیکھ سکتی تھی، وہ کمپیوٹر انجینئر تھی اور اسے بل گیٹس کی کمپنی مائیکروسافٹ میں جاب مل گئی تھی،دو ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ تھی، آگے ترقی کا زینہ تھا، سیکیور جاب تھی، ہر طرح کی سہولت حاصل تھی اور اس دن کمپنی کی پچاسویں سالگرہ تھی،کمپنی کے چنیدہ لوگ واشنگٹن کے اس ہال میں خوشیوں اور کامیابیوں کی کہانی کہنے کو موجود تھے۔
یہ اے آئی سیکشن تھا۔ وہی مصنوعی ذہانت جس نے دنیا بدل کے رکھ دی، وہ اسی اہم اور دنیا کا مستقبل بدل دینے والے ڈیپارٹمنٹ کی اہم رکن تھی، اسی لیے تو یہاں موجود تھی،پھر اس ڈیپارٹمنٹ کا سی ای او سٹیج پر آیا ، جہاں مشہور ارب پتی بل گیٹس اور کئی دیگر اہم عالمی شخصیات موجود تھیں۔
یہاں ایک شخص مصطفٰی بھی تھا، یہ مسلمان اور شامی تھا اور ایسا باصلاحیت کہ اس مشہور کمپنی کے اہم ترین ڈیپارٹمنٹ کا سی ای او تھا۔ اس نے بتانا شروع کیا کہ کس طرح سے مائیکروسوفٹ کی تخلیق کردہ اے آئی انسانیت کی خدمت سر انجام دے رہی ہے۔ یہی وقت تھا جب مراکشی لڑکی ابتہال کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔ وہ اپنی سیٹ سے اٹھی اور سروقد کھڑی ہوگئی۔اس نے بولنا شروع کیا، اور جب یہ دھان پان سی مراکشی لڑکی بولی تو وہاں سناٹا چھا گیا، بل گیٹس کو اس کا سامنا کرنے کی جرات نہ ہوئی، اس نے سامعین سے رخ پھر لیا اور دوسری دیکھنے لگا، یہ لڑکی بولی اور بولتی چلی گئ۔ بولتے بولتے اس نے سٹیج کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ اس نے کہا، مصطفی تمھیں شرم آنی چاہیے، تم انسانیت کی خدمت کا نام لیتے ہو،جبکہ تمھاری بنائی اسی اے آئی نے اسرائیل کو کوڈز کے ذریعے یہ سہولت دے رکھی ہے کہ وہ فلسطینی بچوں پر بم برسا سکیں، تم ہمارے بچوں کے قتل میں شریک ہو، تمھارے ہاتھ ان معصوم بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، مصطفی تمھیں اس کامیابی پر شرم نہیں آتی، جو دنیا کے سب سے بے بس، بے سہارا اور بے آسرا چھوڑ دئیے گئے بچوں کو قتل کیلئے ڈھونڈنے میں مدد کر رہی ہے۔ چن چن کے ان کی سانسیں چھین رہی ہے، جذبات میں آئی ظالموں کی طرف انگلی اٹھائے معصوم سی یہ لڑکی فولاد بنی ڈٹ کے بولتی اور مصطفی کو عار دلاتی رہی،مصطفی! شام میں تمھارے گھر والے بھی جان جائیں گے کہ تم کس کام میں ملوث ہو۔
اسی دوران سیکیورٹی اہلکار آگے بڑھی، اس نے اسے سٹیج پر جانے سے روکا، زبردستی باہر کی طرف دھکیلا اور بالآخر اسے ہال سے باہر نکال دیا گیا، اس سے پہلے یہ فلسطینی رومال سٹیج کی طرف پھینک چکی تھی۔ یہ اپنا فرض ادا کر چکی تھی،یہ دنیا کو بتا چکی تھی کہ بظاہر دنیا بدل دینے والے،دنیا کو پولیو کے قطروں کے تحفے دے کر مسیحا بننے والے دراصل اندر سے کتنے کالے اور کتنے قاتل ہیں۔
لیکن یہ فریضہ ادا کرنے کی ایک قیمت تھی، بھاری قیمت! اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل کر دیئے گئے، اسے جاب سے نکال دیا گیا، اسے تمام آئی ٹی کمپنیز میں بین کر دیا گیا۔ اس کا روشن مستقبل جس کے پیچھے اس کے ماضی کی طویل جدوجہد،پیسہ اور صلاحیت تھی، پل بھر میں جل کر سب خاک ہوگیا، یہ اپنی اور اپنے مستقبل کی قیمت پر مگر پوری دنیا کو مغرب ،اس کی ترقی ،اس کی ماڈرن کمپنیز اور ان کی خدمت انسانیت کی اصلیت بتا چکی تھی۔وہ بس یہی کر سکتی تھی اور بڑی ہمت سے کر گزری تھی، اس نے اس میں کوئی کوتاہی یابخل نہ کیا تھا۔
وہ نہ کسی ملک کی حکمران تھی اور کسی ایٹمی ملک کی سپہ سالار، اس کے پاس بس اپنا تن بدن تھا اور اپنا سنہرا مستقبل تھا، اک زبان تھی اور کلمہ حق کہنے کا اک موقع۔۔ وہ سب قرباں کرکے بھی یہ کر گزری تھی۔۔ یہ تو حکمران ہیں، جن کے پاس سو عذر اور سو بہانے ہیں، اور یہ ہم ہیں، جن کے پاس قاتلوں کو تقویت پہنچاتی پراڈکٹس کا بائیکاٹ تک نہ کرنے کے کئی عذر اور کئی بہانے ہیں۔ اس نے جاب اور مستقبل ہی نہیں زندگی تک خطرے میں ڈال کے سب چھوڑ دیا اور ہم فلسطین سے محبت کے وہ دعویدار نکلے جو کولا کا ذائقہ تک نہیں چھوڑ سکتے، جو ان کمپنیز سے وابستہ اپنا جھوٹا اور جعلی سٹیٹس بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ فلسطینیوں پر جو بھی گزرے ، ہم تو بس یہ سب پینا اور جینا چاہتے ہیں، خواہ ہمیں یہ فلسطینی بچوں کے خون کی قیمت پر ہی پینا اور جینا پڑے۔ رائلٹی،میٹریل اور دیگر مدات میں اربوں روپے ان کمپنیز کو بے شک پہنچتے رہیں، جو انسانی ضمیر،انسانی اصول اور انسانی اقدار کی قاتل ہوں،لیکن ہم کہتے ہیں،اس کاروبار میں ہمارے اپنے بھی تو شریک ہیں۔ افسوس ابتہال کو پتہ نہ تھا کہ جس میں اپنا بھی فائدہ ہو، اس کام میں اپنے لاشے گرانے میں شریک ہوا جا سکتا ہے۔ اور یہ بات انڈیا کی وانیا اگر وال بھی نہ جانتی تھی، جس نے اسی کمپنی کے اگلے سیشن میں یہی عمل دہرایا، صدائے احتجاج بلند کی اور جاب کھو دی۔
یہ لڑکیاں تھیں ،سو کر گزریں، ہم مرد ہیں، سو ذائقے اور کاروبار بچا رہے ہیں۔ اور ہمیں فلسطین سے بڑی محبت ہے اور فلسطین کے آسمان چھوتے لاشوں پر ہمارا دل روتا ہے۔
#یوسف_سراج