اعتکاف کے حوالے سے بنیاد قرآن مجید کی ایک آیت ہے:
وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ (البقرۃ 187)
اور تم مساجد میں اعتکاف کرتے ہو
اس حوالے سے یہ گیارہ نقاط پڑھ لیں اور میری تصحیح کر دیں کہ میں کہاں غلط ہوں جزاکم اللہ خیرا
01) مسجد کا اطلاق جائے نماز یا مصلی پر نہیں کیا جاتا بلکہ اصطلاحی طور پر اس مقام پر کیا جاتا ہے جہاں پنج وقتہ نماز قائم کی جاتی ہو اور نماز جمعہ کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہو۔ اور جب تک کوئی واضح قرینہ یا صارف نہ پایا جائے اس وقت اس آیت میں مسجد کا مطلب معروف معنی میں ہی لیا جائے گا نہ کہ گھروں میں قائم شدہ مصلی اور کسی بھی قسم کا جائے نماز وگرنہ پوری زمین نماز کے لیے طاہر ہے تو پھر اعتکاف زمین میں کہیں بھی کیا جانا جائز ہونا چاہیے۔
02) اعتکاف کی بنیاد بننے والی آیت سورۃ البقرۃ 183 تا 188 کا ایک جزو ہے اور ان چھ آیات میں جو بھی فقہی احکام اور اخلاقی آداب بیان کیے گئے ہیں وہ سب بلا تخصیص و تفریق مرد و عورت دونوں کے لیے ہیں اور اس پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں تو صرف اعتکاف والے جزو کو مردوں کے ساتھ خاص کر دینا دلیل کا محتاج ہے وگرنہ یہ مانا جائے کہ باقی احکام و آداب کی طرح اعتکاف کا حکم بھی دونوں کے لیے عام ہے۔
03) عورت کی گھر میں نماز کی افضلیت پر قیاس کرتے ہوئے اس کے لیے گھر میں اعتکاف کا جواز پیدا کرنا بھی غیر معقول بات ہے تو کیا خیال ہے۔ مرد کی نفلی نماز بھی تو گھر میں افضل ہے جب کہ اعتکاف بھی غیر واجب ہے۔ پھر تو مردوں کے لیے بھی گھر میں اعتکاف بیٹھنے کا جواز ہونا چاہیے۔ یقینا عورت کی گھر میں نماز کی افضلیت پر قیاس کرتے ہوئے اعتکاف کا گھر میں احسن کہنا بھی دلیل کا محتاج ہے۔
04) احناف کی بعض کتب میں عورت کا اعتکاف مسجد میں بھی درست ہے۔ چنانچہ (منیۃ المفتی) میں ہے: لَوْ اِعْتَکَفَتْ فِی الْمَسْجِدِ جَازَ ۔‘
اور ’’البدائع‘‘ میں ہے: لَهَا اَنْ تَعْتَکِفَ فِی مَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ
05) خواتین کے گھر میں اعتکاف کے قائلین کی ایک دلیل یہ ہے کہ احادیث میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ صحابیات مسجد میں اعتکاف کیا کرتی تھیں تو عرض ہے اول تو ایسا ہے نہیں لیکن پھر بھی اگر یہ بات مان لی جائے تو ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس میں خواتین کا گھر میں اعتکاف کرنے کا ذکر ہو جب اعتکاف کا مسجد یا گھر میں کرنا یا نہ کرنا دونوں کیفیات غیر مذکور ہیں تو پھر فقہی قاعدہ کے تحت اعتکاف اپنی اصل کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس کی اصل اعتکاف کا مساجد میں کیا جانا ہے۔ جبکہ صحیح بخاری کتاب الصوم باب الاعتکاف کی معروف حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ امہات المومنین بھی مسجد میں اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (بخاری 2041)
06) مذکورہ بالا آیت کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اعتکاف اگر مسجد کے علاوہ بھی درست ہو تو پھر اس کو مباشرت کی حرمت سے مخصوص کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جماع بالاجماع اعتکاف کے منافی ہے تو مساجد کے ذکر سے معلوم ہوا مراد اس سے یہ ہے کہ اعتکاف مسجدوںسے مخصوص ہے۔ اس بناء پر ابن حجر رحمہ اللہ شارح بخاری رقمطراز ہیں:
’وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاء ُ عَلَی مَشْرُوطِیَّةِ الْمَسْجِدِ لِلِاعْتِکَافِ ۔‘ (فتح الباری:272؍4)
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا وجود شرط ہے۔‘‘
نیز حدیث ’اِذَا اعْتَکَفَ اَدْنٰی اِلَیَّ رَأْسَہٗ وَ ھُوَ فِی الْمَسْجِدِ ‘ میں بھی اس امر کی دلیل ہے کہ اعتکاف مسجد کے ما سوا غیر درست ہے۔ چنانچہ’’المرعاۃ‘‘(۳۱۳/۳) میں ہے: ’وَ فِیْهِ اَنَّ الْاِعْتِکَافَ لَا یَصِحُّ فِیْ غَیْرِ الْمَسْجِدِ وَ اِلَّا لَکَانَ لَهُ اَنْ یَّخْرُجَ مِنْهُ لِتَرْجِیْلِ الرَّأْسِ‘
اس حدیث میں دلیل ہے کہ اعتکاف مسجد کے علاوہ غیر درست ہے ورنہ آپﷺ کے لیے ممکن تھا کہ سر مبارک کی کنگھی کے لیے باہر تشریف لے جاتے۔
07) اگر عورت کے گھر میں اعتکاف کی یہ دلیل بنائی جا رہی ہے کہ حجاب کے منافی معاملات رونما ہوتے ہیں تو عرض ہے کہ تو پھر حج و عمرہ میں حجاب کے منافی رویے کہیں زیادہ کثرت کے ساتھ دیکھنے کو نظر آتے ہیں تو کیا حج و عمرہ پر بھی اسی دلیل کا اطلاق کیا جائے گا۔ اور حیرانی اس امر پر ہے کہ عورتوں کا بغیر حجاب بازار جانا، دنیاوی معاملات میں بھرپور شرکت کرنا پر ممانعت بھی اس زمرے میں آنی چاہیے لیکن وہاں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
08) اعتکاف کی اصطلاحی تعریفات کو بغور پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دنیاوی مشاغل و مصروفیات سے کٹ کر مسلمان اللہ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کیا گھر میں یہ ممکن ہے جہاں مہمانوں کا انا جانا ، افراد خانہ کی روز مرہ مصروفیات و بات چیت کے ساتھ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان میں اکثر آبادی کی مکانیت کو دیکھا جائے تو یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ اتنے چھوٹے گھروں میں یہ کیسے ممکن ہے اور فطری بات ہے شریعت کا کوئی حکم صرف امیروں کے لیے نہیں ہو سکتا۔
09) اعتکاف کے دوران جس روحانیت و تقدس کی ضرورت ہوتی ہے وہ صرف مساجد کے بابرکت ماحول میں ہی مل سکتی ہے گھروں میں اس کا وجود ناممکن ہے کیونکہ جس جگہ کو خاتون نے اپنے اعتکاف کے لیے مختص کیا ہو وہاں گھریلو زندگی کے تمام معاملات بالخصوص ازدواجی معاملات پاکی اور ناپاکی کے معاملات بھی ہوتے ہوں گے تو کیسے ممکن ہے کہ وہاں اعتکاف کو روحانیت و تقدس مل سکے۔
10) خواتین کا گھروں میں اعتکاف کی بنیاد اگر صرف علماء کے فتاوی ہی ہیں تو قرن اول کے محدثین کے فتاوی کہیں زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں بنیاد بنایا جائے۔
11) البتہ خواتین کے مساجد میں اعتکاف کے حوالے سے کہیں شریعت کے منافی کوئی رویہ نظر آتا ہے مثال کے طور پر حجاب کے منافی وغیرہ تو بہتر ہے کہ اسے ترک کر دیا جائے کیونکہ یہ ایک نفلی عبادت ہے۔
والعلم عند اللہ

ڈاکٹر شاہ فیض الابرار صدیقی