اگر آپ مغرب،اہل مغرب، ان کے سپورٹرز اور ممد و حامیان کا بیانیہ سنیں تو ایک چیز جو بہت ہی بہترین اور جازب نظر پیکنگ میں آپ کو پیش کی جائے گی وہ یہ ہے کہ یہ بہت  وسیع الظرف ہیں، ان میں مخالف نقطہ نظر کے حامل کے لیے برداشت بھی ہے اور قدردانی بھی، ان میں فلیکسی بلٹی اور گنجائش کا مادہ ہے یہ اور اس طرح کے دیگر خوش نما نعرے اور لوگوز سننے اور پڑھنے کو ملیں گے۔

جب کہ دوسری طرف مسلمانوں خصوصا وہ مسلمان جو دین سے عملی طور پر وابستہ ہیں اور دین کی تعلیم و ترویج کے لیے سرگرم ہیں ان کے خلاف یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان میں برداشت کا فقدان ہے یا یہ اپنے مخالف نظریے کے حامل کو برداشت نہیں کر سکتے، مختلف  رائے رکھنے کی گنجائش اور آزادی نہیں دیتے، نقطہ نظر کے متفرق ہونے پر شدت پسندی یا تنگ نظری پر اتر اتے ہیں بس اس طرح کے دیگر الفاظ ، اسطلاحات اور فقرات سے نواز جاتا ہے۔

ذہنی توسع اور وسعت افکارکے یہ علمبردار اس وقت بری طرح ایکسپوز ہو جاتے ہیں جب ان کے سامنے ان کے زاویہ نظر سے ہٹ کر واقعہ یا بات ہوتی ہے تب ان دل فریب نعروں اور دعوں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ اس کی  مثالیں تو بہت ہیں حال ہی میں ایک واقعہ نظر سے گزرا جسے الجزیرہ نے رپورٹ کیا، پڑھ کر یہ نام نہاد وسیع الظرفی، براڈ مائنڈد نیس، وسعت قلبی اور برداشت جیسے دیگر خوشنما نعرے جو ان سے منسوب کیے جاتے ہیں سب فیک اور جعلی نظر آنےلگے گو کہ ان کی حقیقت پہلے ہی آشکار تھی مگر یہ واقعہ پڑھ کر یقین مزید پختہ ہوگیا۔

آسڑیلیا اور نیوزی لینڈ میں اس وقت ویمن فیفا ورلڈ کپ جاری ہے جس میں براعظم افریقہ کے مسلم اکثریتی ملک مراکش کی ویمن ٹیم اس وقت تاریخ کی بہترین پرفامنس دے رہی ہے۔ مراکش کو انگریزی میں مراکو کہتے ہیں یہ وہی تاریخ اسلام کا عظیم خطہ ہے جہاں اسلامی جرنیل موسی بن نصیر کے حکم پر کمانڈر طارق بن زیاد نے جبل الطارق پر اپنے بیڑے فتح کا عزم لیے جلا دیے تھے کہ واپسی کا راستہ نہیں ہے، فتح یا شہادت کے سوا تیسری آپشن نہیں ہے، آج بھی اس بندر گاہ والے ساحلی شہر کو جبرالٹر کے نام سے جانا جاتا ہے اور سپین(اندلس) کے زیر کنٹرول ہے ۔

یہ پہلا موقع ہے کہ مراکش کی  ٹیم بیسٹ 16 ٹیموں میں پہنچی ہے۔ جس وجہ سے اس وقت فیفا کی رینکنگ اور درجہ بندی کے پنڈت ورطہ حیرت میں ہیں۔ اس سے پہلے مردوں کے ایونٹ میں بھی مراکش کی ٹیم نے غیر معمولی کارکردگی دکھائی تھی۔ اس کے علاوہ قطر فیفا ورلڈ کپ میں مسلم کھلاڑیوں کی طرف سے حسن اخلاق پر مبنی چند واقعات وائرل ہوئے  جنہوں نے دنیا میں کافی شہرت حاصل کی تھی۔

مراکش کے جرمنی کے ساتھ مقابلے سے قبل میلبورن میں پری میچ پریس کانفرنس کے دوران بی بی سی کے رپورٹر  نے سوال کیا کہ مراکش میں ہم جنس پرستوں کا رشتہ رکھنا غیر قانونی ہے۔ کیا آپ کے اسکواڈ میں کوئی ہم جنس پرست کھلاڑی ہے اور مراکش میں ان کے لیے زندگی کیسی ہے؟ مغربی میڈیا کے رپورٹر کی جانب سے موقع محل سے باکل غیر متعلقہ سوال سن مراکش ٹیم کی کپتان غزلین پریشان ہو گئیں، سوال یہ تھا کہ مراکش میں ہم جنس پرستوں کا رشتہ رکھنا غیر قانونی ہے۔ کیا آپ کے اسکواڈ میں کوئی ہم جنس پرست کھلاڑی ہے اور مراکش میں ان کے لیے زندگی کیسی ہے؟

بی بی سی کے رپورٹر کی اس حرکت پر فیفا انتظامیہ کے ایک آفیشل نے فورا دخل اندازی کرتے ہوئے کہا اس قسم کے سوالات قطعی طور پر سیاسی قسم کے ہیں بہتر ہوگا کہ ہم اپنے موضوع پر رہیں۔ فٹ بال اور ایونٹ کے متعلق سوال کریں۔  بی بی سی کے کھیلوں کے رپورٹر کی اصل ذمہ داری یہ تھی کہ وہ کھیل کے متعلقہ سوال کرتا ایونٹ کو کور کرتا، مگر اس نے وہ سوال کیا جس کا مقصد تھا کہ مراکش کے اس امیج کو بیان کیا جائے جس کی وجہ سے اسے دنیا میں ہدف تنقید بنایا جائے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مراکش میں ہم جنس پرستی کے نتیجے میں تین سال قید ہو سکتی ہے ۔ خاتون کپتان اگر کسی کھلاڑی کا نام لے بھی لیتی تو اس وقت اسے ملکی قانون کے مطابق سزا ہوجاتی ، تب یہ پروپیگنڈا کیا جاتا کہ دیکھو ایک سٹار کھلاڑی کو بھی معاف نہیں کیا گیا، اصل میں ان کو تکلیف یہ ہے کہ مراکش کی ویمن ٹیم میں ایک خاتون کھلاڑی سکارف پہن کر بھی کھیلتی ہے۔ جس سے ان کے اس پراپیگنڈے کو نقصان پہنچتا ہے کہ مسلم یا عرب کلچر میں خواتین پر بے جا پابندیاں ہیں اور انہیں کسی قسم کی کوئی آزادی نہیں ہے اور نہ ان کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں۔

اس سے قبل جب قطر میں فیفا مین ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا تو تب کتنی ہی فوٹوز اور ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں غیر مسلم مغربی خواتین حجاب پہنتی دکھائی دیتی  ہیں اور اس لباس میں خود کو پرسکون اور محفوظ محسوس کرتی ہیں، کتنی ہی خواتین مسلم کلچر سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل بھی ہوئیں، میڈیا پر ایسے متعد واقعات رپورٹ ہوئے تھے کہ خواتین کو ایسے ایونٹ میں جسنی ہراسمنٹ اور ابیوزنگ  کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ یہاں سخت قوانین ہیں جو عورت کو تحفظ دیتے ہیں، ورنہ تو یورپ وغیرہ میں ان مواقع پر یہ لوگ انسانیت سے بھی باہر ہوتے ہیں اور خواتین ان ہوس کے پوجاریوں کا نشانہ بتنی ہیں۔

ایسے مواقع پر جب سٹار کھلاڑی اسلامی شعار کو اپناتا ہے تب اس کو فالو کرتے ہوئے شائقین اور فینز اسی گیٹ اپ،حلیے اور ادا کو کاپی کرتے ہیں۔ اس سے اسلام کے ان بنیادی شناختی چیزوں کا اظہار مثبت پیرائے میں ہوتا ہے اور ایک قسم کی دعوت پھیلتی ہے، مگر ایسے چیزیں ان کے لیے بہت تکلیف دہ ہیں کہ جس اسلام کو ہم نے انسانیت مخالف پیش کرنے کے لیے اتنے وسائل اور جتن کیے ا اس کو اب ہمارے ہی پیدا کردہ  پلیٹ فارمز پر سٹار کھلاڑیوں کی فالوئنگ میں اپنایا جارہا ہے۔ درحقیقت اسلام میں اللہ رب العزت نے جازبیت ہی اتنی رکھی ہے کہ یہ ہر ماحول، موسم اور جگہ پر اپنی تاثیر دکھاتا ہے کیونکہ یہ انسان کی فطرت کے قریب تر جو ہے اور جو چیز  فطرت کے قریب ہو اس کو بھلا زیادہ دور کیونکر رکھا جاسکتا ہے۔

الیاس حامد