سوال

میت کے ترکہ سے متعلق رہنمائی درکار ہے، ایک آدمی فوت ہوا، اس کی اپنی اولاد کوئی نہیں، ورثا میں ایک بیوی ہے، چار بھائی اور ایک بہن ہے۔ ایک بھائی حقیقی ہے، جبکہ باقی تین بھائی اور ایک بہن وہ صرف ماں کی طرف سے بھائی ہیں۔ کیونکہ میت کے والد صاحب فوت ہوئے تو اس کی والدہ نے دوسرى شادی کی، جس سے بقیہ اولاد پیدا ہوئی۔ یہ بھی بتادیں کہ وراثت کی تقسیم سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا؟ ( محمد ہارون الرشيد،   رياض، سعودی عرب)

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

میت کے ترکے سے چار کام کیے جاتے ہیں: سب سے پہلے تجہیز و تکفین، پھر قرض کی ادائیگی اور پھر اگر اس نے وصیت کی ہے تو ایک تہائی مال کے اندر رہتے ہوئے اس کی تنفیذ کرنا واجب ہے ۔ یہ تین کام کرنے کے بعد چوتھے نمبر پر بقیہ مال کو ورثا میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا ہے۔
پیش کردہ مسئلہ میں میت کی بیوی کا چوتھا حصہ ہے، جبکہ اس کے مادری (اخیافی) بہن بھائیوں کا تیسرا حصہ ہے اور بقیہ ماندہ سارا مال اس کے حقیقی بھائی کو بطور عصبہ ملے گا۔
طریقہ کار یوں ہو گا کہ ترکے کے کل بارہ حصے کیے جائیں۔ تین حصے بیوی کو، چار حصے مادری بہن بھائیوں کو ( ہر ایک کو ایک ایک حصہ) اور بقیہ پانچ حصے اس کے حقیقی بھائی کو دے دیے جائیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ