یہ دنیا فانی ہے

ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے جو آیا ہے اس نے واپس جانا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے مقصدِ حیات کو سمجھ کر اپنی زندگی دین کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کر کے اللہ کو راضی کر لیں۔ انسان خود تو زندہ نہیں رہتا مگر اس کا کردار، حُسنِ سلوک اور اخلاق زندہ رہتا ہے، دین کے لیے اس کی تگ و تاز زندہ رہتی ہے۔ علم کے جلائے ہوئے چراغ دنیا کو منور کرتے رہتے ہیں، چراغ سے چراغ جلتا رہتا ہے۔ ایسی اہل علم شخصیات سے دنیا فیض پاتی ہے۔
انہی عبقری شخصیات میں سے ایک شخصیت مولانا علم دین انصاری رحمۃ اللہ علیہ (وِنِّی والے) بھی تھے، جن کی خدمات کا ذکر کئے بغیر مؤرخ حافظ آباد میں مسلک اہلحدیث کی تاریخ شروع کرنے سے قاصر رہے گا۔
؎ ایک پھول اگر چاہے تو گلستان بن جائے
اک موج اگر چاہے تو طوفان بن جائے
میرے خون کے ایک قطرے میں ہے اتنی تاثیر
کہ کسی قوم کی تاریخ کا عنوان بن جائے۔
🟢 حافظ آباد صوبہ پنجاب کا چھوٹا سا ضلع ہے جس کی سرحدیں سرگودھا،چنیوٹ،شیخوپورہ، گوجرانوالہ، گجرات اور منڈی بہاؤالدین سے ملتی ہیں۔
حافظ آباد شہر سے مشرق کی جانب نوشہرہ ورکاں روڈ پر چھ سات کلومیٹر کے فاصلے پر وِنّی(Vinni)نام سے ایک گاؤں آباد ہے۔بزرگوں سے اس گاؤں کی تاریخ کچھ اس طرح سنی ہے کہ وِنہ، دُھنہ اور پُھلہ نامی تین بھائی تھے تینوں نے اپنی اپنی جاگیر میں اپنے ناموں سے گاؤں آباد کیے۔ وِنِّی، دُھنِّی، مدن پھِلہ۔واللہ اعلم۔
اس وِنِّی نامی گاؤں میں ایک بزرگ “بابا سلطان” 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب ہندوستان میں انگریزوں کیطرف سے جہاد کی پاداش میں مسلمانوں اور بالخصوص اہلحدیث کے خلاف زمین تنگ کردی گئی تو اس دور میں یہ بزرگ ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ یعنی اس گاؤں میں وہ پہلے اہل حدیث تھے۔ انہوں نے یہاں چھوٹی سی مسجد قائم کی۔ بعد کے دور میں یہاں “کوٹ سجانہ” گاؤں کے مولانا عبدالقادر خطیب رہے۔
جب مولانا علم دین فارغ التحصیل ہو کر واپس آئے تو اس مسجد کی تعمیر اور توسیع کروائی اور یہاں مدرسہ بھی قائم کیا۔ اس تاریخی مسجد کو ضلع حافظ آباد میں مسلک اہلحدیث کی پہلی مسجد کا اعزاز حاصل ہے۔
قیام پاکستان سے قبل شہر حافظ آباد میں ہندو، سکھ اور مسلمان آباد تھے۔ اور مسلمانوں میں بریلوی مسلک کے لوگوں کی اکثریت تھی۔ مولانا علم دین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے گاؤں موضع وِنّی میں مسجد اہل حدیث اور ایک معیاری دینی درسگاہ قائم کرنے کے بعد شہر حافظ آباد کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا۔اس عظیم مشن کی خاطر درج ذیل گھرانے گاؤں سے ہجرت کر کے شہر حافظ اباد منتقل ہوئے۔
1: مولانا علم دین صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔
2: میاں احمد دین صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔(یوسف سوپ فیکٹری والے)
3: میاں عمر دین کشمیری رحمۃ اللہ علیہ۔
4: میاں ولی محمد انصاری رحمۃ اللہ علیہ(مولانا کے بھتیجے)
1916ء میں مسجد اہل حدیث کے قیام کے لیے جگہ خریدنا شروع کی۔ دو بار سودا منسوخ کروا دیا گیا بالآخر1918ء میں ایک ہندو “بلاقی رام” سے جگہ خریدنے کی بات کی اور ساتھ ہی شر پسند گروہ کے عزائم سے آگاہ کیا اس پر بھی سودا کینسل کروانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا مگر وہ کسی نام نہاد مسلمان کے دباؤ میں نہ آیا اور 1922ء میں مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔
؎رقیبوں نے رپٹ لکھوائی جاجا کےتھانے میں
اکبر خدا کا نام لیتا ہے اسی زمانے میں۔
یہی مسجد بعد میں “مولانا یحییٰ صاحب والی مسجد” کے نام سے مشہور ہوئی۔ 1942ء میں مولانا علم دین رح کی وفات کے بعد حافظ محمد صادق اس مسجد کی امامت اور خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ان کے بعد بالترتیب ابوالحسن مولانا محمّد یحییٰ حافظ آبادی، مولانا نصراللہ خان بھٹی، مولانا محمد داؤد علوی اور مولانا زبیر احمد ظہیر اس مسجد کے خطیب رہے۔
قیام پاکستان کے بعد محسنِ جماعت میاں فضل حق صاحب، حکیم مولانا محمد ابراہیم صاحب(قاری محمد اسماعیل اسد رحمہ اللہ کے والد)، حکیم مولانا بشیر احمد صاحب(مولانا حبیب اللہ یاسر اور حکیم رضاء اللّٰہ عباس وغیرھم کے والد) ابوالحسن مولانا محمد یحیٰی صاحب اور میاں عبدالحق چولہوی(قاری زبیر قاسمی کے دادا) وغیرھم کی آمد سے مسلک اہلحدیث کی قوت میں اضافہ ہوا۔
🟢 تحصیلِ علم:
مولانا علم دین اور انکے بھائی امیر احمد دہلی میں پڑھنے کے لیے گئے۔طلباء کی مطلوبہ تعداد پوری ہونے پر داخلہ بند کر دیا گیا تھا انتظامیہ نے داخلے سے انکار کر دیا۔فوراً واپس آنا بھی ممکن نہ تھا وہیں رک گئے۔ آپ بڑے خوش الحان تھے۔ آذان بڑی خوبصورت آواز میں کہتے آذان کی آواز سن کر مدرسہ کے مہتمم نے پوچھا کہ آج اذان کس نے دی ہے؟۔۔۔ بتایا گیا کہ نیا طالب علم آیا ہے،مگر کھانے کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اسے داخلہ نہیں دیا گیا تو وہ کہنے لگا کہ اس کے کھانے کا انتظام میں کروں گا اسے داخلہ دیا جائے۔اور آذان کی خدمت ان کے سپرد کر دی۔ اس طرح ان کو وہاں داخلہ مل گیا پڑھتے رہے خوب پڑھتے رہے۔ دس سال کے بعد تعلیم مکمل ہونے پر ہی واپس گھر لوٹے۔
پرانے دور میں ذرائع آمد و رفت عام نہ تھے۔ موبائل کی سہولت نہ تھی۔ جو لوگ گھر سے پڑھنے کے لیے جاتے انہیں پڑھنے کے علاوہ اور کوئی دلچسپی نہ ہوتی۔ اساتذہ بھی “جتی ستی” ہو کر پڑھانے میں مصروف رہتے.
تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس لوٹے اور اپنے گاؤں میں مسلمانوں کو اس قدر منظم کیا مسجد کے سامنے ہندوؤں کو باجے بجانے اور جانوروں کا جھٹکا کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔
🟢 عادات و خصائل: آپ بڑے مضبوط جسم کے حامل کڑیل جوان، بہادر اور جری انسان تھے۔کئی مواقع پر مقامی سکھوں سے ہونے والی لڑائیوں میں اکیلے ہی کئی کئی سکھوں کا مقابلہ کرتے رہے۔۔۔[ان کے خاندان کے پاس ان کا بڑا سا کھونڈا(عصا) موجود ہے].
انتہائی نیک سیرت، صلح جو، دھیمے مزاج اور سادہ طبیعت کےحامل، خیرخواہی کا جذبہ رکھنے والے، صابر و شاکر ، مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ آپ کہ اہلیہ نابینا تھی۔ اللہ نے اولاد بھی نہ دی مگر اسی نیک سیرت خاتون کیساتھ زندگی گزار دی۔
جامع مسجد “اللّٰہ والی ساگر روڈ” کے خطیب مولانا محمد صدیق سالار حفظہ اللٌٰہ راوی ہیں کہ” میرے والد مولوی حاتم علی غازی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور تایا جان غازی محمدحسین صاحب نے مولانا علم دین رحمۃ اللہ علیہ کا دور دیکھا تھا۔ ہمارا آبائی گھر بھی انکے پڑوس میں تھا۔
تایا جان نے بتایا کہ ایک بار ایک سائل نے مولانا سے اللہ کے نام پر سوال کیا۔ مولانا نے بڑے پیار سے پاس بٹھا کر پوچھا کہ ان پیسوں کا کیا کرو گے تو اس نے کہا بس اللہ کے نام پر مجھے دیں میں نے افیون کھانی ہے۔
تو مولانا نے اسے کچھ پیسے دے دیے۔(آپ کی عادت تھی کہ سائل کو انکار نہ کرتے بلکہ اپنے پاس بٹھا کر نصیحت کرتے اور حسب استطاعت کچھ نہ کچھ دے دیتے)
معتقدین نے پوچھا کہ مولانا اس نے تو ان پیسوں سے افیم کھانی ہے آپ نے اسے پیسے کیوں دیے؟ تو مولانا نے فرمایا کہ اس نے اللہ کے نام پر مجھ سے سوال کیا تھا میرے پوچھنے پر اس نے سچ سچ بتایا جھوٹ نہیں بولا تو مجھے اللہ کے نام سے حیا آئی۔ میں نے اسے پیسے دے دیے ان شاءاللہ اگر اللہ تعالٰی چاہے گا تو وہ ان پیسوں سے افیم نہیں کھائے گا۔۔۔کچھ دیر کے بعد دیکھا کہ وہ آدمی واپس آرہا ہے۔اس نے آ کر معافی مانگی اور کہا کہ اپنے یہ پیسے واپس رکھ لیں میں آج کے بعد افیون نہیں کھاؤں گا۔ آپ کے ان پیسوں نے نہیں میری دنیا بدل دی اب زندگی بھر یہ کام نہیں کروں گا۔ اسی طرح کئی بار سائل کو جائے نماز کے نیچے سے پیسے💰 نکال کر دیتے دیکھا حالانکہ جائے نماز ہم خود بچھاتے تھے”۔
📚 تاریخ اہل حدیث (شہر گوجرانوالہ) کے مرتب ابو البشیر عبداللہ المعروف اہلحدیث لکھتے ہیں:
حافظ آباد شہر سے مشرق کی جانب شہر سے چار میل کے فاصلہ پر ونی کے نام سے ایک گاؤں واقع ہے جس میں اللہ کے نیک سیرت انسان مولانا علم الدین صاحب رہائش پذیر تھے۔ اپنے گاؤں کی سخت تکالیف کے اسباب مولانا مرحوم بمعہ اپنے رفقاء احمد دین ترکھان اور اللہ دتہ کشمیری کے ہمراہ حافظ آباد شہر میں آکر آباد ہو گئے۔ مسجد واقع متصل سرکاری پڑاؤ بطرف مشرق گوجرانوالہ کی طرف سے جاتے ہی سرخ رنگ کے عجیب و غریب مینار نظروں میں گھومنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس وقت مسجد میں خطابت کے فرائض مولانا محمد یحیٰی صاحب حافظ آبادی سرانجام تھے۔ چند ایک دوستوں کی کوشش سے یہ عظیم کام پایۂ تکمیل تک پہنچا۔ اس کی تمام تر امداد حضرت مولانا ثناءاللہ صاحب امرتسری رحمہ اللّٰہ نےکی اور اس کا سنگ بنیاد بھی مولانا موصوف اور حضرت مولانا محمد صاحب دہلوی رحمہ اللّٰہ نے اپنے دست مبارک سے رکھا اور اللہ کے فضل و کرم سے اہل حدیث جماعت کا ایک عظیم المرتبت مدرسہ ہے جس میں طلباء کو دین اسلام سے آشنا کرایا جاتا ہے اور بھی کئی مساجد موجود ہیں جن میں صبح شام قال اللہ وقال رسول کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ان سب حضرات میں خصوصا مولانا علم الدین صاحب مرحوم اور مولانا عمر الدین صاحب مرحوم کو سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا بازاروں اور گلی کوچوں میں ان بزرگوں کو مارا پیٹا جاتا اور تمام شہر میں ہمہ وقت شور وغل برپار رہتا۔صوفی محمد عبداللہ صاحب مرحوم مقیم وزیر آباد اس سے قبل حافظ آباد میں ہی رہائش پزیر تھے۔۔۔۔(کتاب ھٰذا صفحہ 62-63)
🟢 تلامذہ:
1:- مولانا محمد ابراہیم رحمۃ اللّٰہ علیہ(ارگن والے)
مولانا ابراہیم مرحوم مستجاب الدعوات بزرگ تھے. خوش الحان خطیب تھے۔ انکے حسنِ سلوک اور خوش اخلاقی کیوجہ سے ہندو اور سکھ بھی ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔مولانا علم الدین صاحب کی وفات کے بعد جب گاؤں ونی والی مسجد کی توسیع کی ضرورت پڑی تو سکھوں نے رکاوٹ کھڑی کر دی اور جگہ دینے سے انکار کر دیا۔ مقامی لوگوں نے مولانا ابراہیم صاحب ارگن والوں کو دعوت دی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ کے بول خوش الحانی سے پڑھے۔سکھ سردار سن کر جھومنا شروع ہو گئے۔ (اس دور میں علماء کی تقریریں سننے کے لیے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آجایا کرتے تھے آج کل مسلمانوں کے دوسرے مسالک تو رہے ایک طرف اپنے اہلحدیث بھی دوسری تنظیم کے مقرر کو سننے سے گریز کرتے ہیں)۔
جب سکھ خوب وجد میں آگئے تو مولانا نے فرمایا سردارو! میں آپ کے پاس ایک کام کے لیے آیا ہوں تم میری مسلمان برادری کو مسجد کے لیے جگہ کیوں نہیں دیتے؟ سکھوں کا بڑا سردار کہنے لگا مولانا آپ اپنے ہاتھ سے نشان لگا جائیں ہم اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔۔ اس طرح جس قدر جگہ کی ضرورت تھی اس پر نشان لگا دیے گئے اور واقعی سکھوں نے اپنی بات پوری کر دی بعد میں اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔
2: مولانا عنایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ:
ان کا تعلق گاؤں ونی سے تھا مولانا علم دین رحمۃ اللہ علیہ سے علم حاصل کیا۔جب مولانا نے گاؤں چھوڑ کر شہر میں مستقل ڈیرے لگا لیے تو گاؤں والی مسجد کے ذمہ داری ان کے سپرد کی ان کی اولاد بیٹے اور پوتے اکثر عالم اور حافظ ہیں۔ شہر کی کتنی ہی مساجد میں امام و خطیب ہیں۔
3: حافظ آباد کے نزدیکی گاؤں جگانوالہ سے ایک نوجوان نے دینی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر مجبوری ظاہر کی کہ اس کے پاس بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے جس کی ذمہ داری اس کے سر ہے۔ مولانا نے اس سے یہ طے کر لیا کہ وہ بھیڑ بکریاں چراتا چراتا آدھا سفر وہ طے کرے گا اور ادھر سے مولانا اس کے گاؤں کی طرف آدھا راستہ تک پیدل جاتے اور وہاں اس کو سبق دے آتے۔
اس طرح تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اس نوجوان کا نام مولوی اللّٰہ دتہ تھا۔
4: آپ کے ایک نامور شاگرد مولانا محمد حسین دینی اور علمی شغف رکھنے والے شخص تھے۔آپ نے اپنے گاؤں ممناں میں مسجد اہل حدیث کی بنیاد رکھی اہل دیہہ کو قران و حدیث کی تعلیم سے اس طرح آراستہ کیا کہ پورا گاؤں ہی ان کا ہم عقیدہ ہو گیا۔
مولانا محمد حسین نے اپنے دو بیٹوں قاری محمد یوسف اور محمد اسلم کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا۔ مولانا محمد اسلم جامع مسجد القدس اہل حدیث میں امام و خطیب رہے۔ اب ان کے صاحبزادے مولانا طیب طاہر بھٹی شہر حافظ آباد میں خطیب ہیں۔
مولانا محمد حسین کے دوسرے بیٹے قاری محمد یوسف حفظہ اللہ 1980ء سے لے کر جامعہ مسجد محمدی اہل حدیث ونیکے روڈ حافظ آباد میں خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کے صاحبزادے حافظ محمد عمر یوسف جامعہ مسجد قبا اہل حدیث میں خطیب ہیں۔
یہ تمام سلسلہ مولانا علم دین رحمۃ اللہ علیہ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
5:- مولانا کے فیض یافتگان میں ایک نام مولوی عمر دین رح کا بھی ہے۔ جو کہ پیشے کے اعتبار سے حجام تھے۔مولانا کی صحبت سے فیض یاب ہوئے تو دکان پر لکھ کر لگا دیا یہاں شیو نہیں کی جاتی۔
کچھ عرصہ کے بعد دکان چھوڑ کر دیسی گھی کا حلوہ لگانا شروع کیا اس میں اللہ تعالی نے اس قدر لذت اور برکت رکھی کہ ان کے آنے سے پہلے لوگ انتظار میں ہوتے۔ ان کا اصول تھا جونہی آذان ہو جاتی دکانداری بند کر دیتے۔ اس دوران اگر گاہک آ کر تقاضا کرتا تو اسے فرماتے تمہیں شیطان نے بھیجا ہے آذان ہو چکی ہے اب نماز کے بعد سودا ملے گا۔
🟢 وفات:
خاندانی ذرائع کے مطابق 1942ء میں آپ نے وفات پائی اور گڑھی عوان حافظ آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
؎ ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
مولانا کی اولاد نہ تھی ان کے بھتیجے میاں ولی محمد کی اولاد میں سے مولانا محمد عباس خلیق بن مولوی بشیر احمد وزیر آباد میں دین حنیف کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف عمل ہیں خوش الحان خطیب ہیں۔
میاں ولی محمد کے دوسرے پوتے قاری محمد یوسف بن حاجی محمد منشاء صاحب استاذ المجودین قاری محمد ادریس عاصم رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں۔سعودیہ میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
روحانی اولاد میں بے شمار تلامذہ اور حافظ آباد میں ان کے لگائے ہوئے پودے بے شمار مساجد اور مدارس ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
🟢 ہمیں اکابر پرستی سے منع کیا گیا تھا مگر ہم تو اپنے اکابرین کی خدمات کا تذکرہ اور ان کا نام لینے اور لکھنے سے بھی گریز کرنے لگے۔ حافظ آباد کی وہ تاریخی مسجد جو اب مولانا محمد یحییٰ والی مسجد کے نام سے مشہور ہے اس کے کسی کونے گوشے میں بھی اس کے بانی کا نام اور تاریخ درج نہیں کہ ہماری نسل نو اپنے اکابرین کی مسلک کی اشاعت کے لیے قربانیوں کی سنہری تاریخ سے واقف ہو سکے۔
؎ اہل دل کہیں اور جا بسیں
بن گئی ہے یہاں نئی دنیا
📚 فضیلۃالشیخ مولانا ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ اپنی تصنیف “سفر نامہ۔۔۔محدثین کی تلاش میں” کے صفحہ نمبر292 پر اسی طرح کا ایک مشاہدہ لکھ کر اظہار افسوس کرتے ہیں۔
“نماز جمعہ کے بعد واپسی پر ساہو والا (سیالکوٹ)جانے کا ارادہ تھا جہاں شیخ گوندلوی رحمہ اللہ(شیخ الحدیث مولانا محمد یحیٰی گوندلوی)کام کرتے رہے۔ہم وہاں پہنچے، اس سفر میں ہمارے ساتھ شیخ کے بڑے بیٹے مولانا انس صاحب بھی تھے جب ہم جامعہ تعلیم القران والحدیث ساہو والا پہنچے تو پریشان ہوئے کہ جس مسجد میں ایک محدث نے زندگی گزار دی وہاں کسی دیوار کے کونے پر شیخ کا نام نظر نہ آیا۔
وہاں کے ایک مدرس صاحب سے پوچھا کہ یہ گوندلوی صاحب والی مسجد ہی ہے تو وہ کہنے لگے: ہاں۔ میں نے کہا: اس مدرسہ میں جو ایک محدث کام کر کے گیا ہے اس کا نام تو کہیں لکھ دیتے۔ تم اتنے ظالم نکلے کہ شیخ کا نام لکھنا بھی برداشت نہ کیا۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ جس جگہ کوئی بڑا محدث گزرا ہو اس ادارے کو یا اس ادارے کے کسی شعبہ کا نام اس کے نام پر رکھ دینا چاہیے تاکہ تاریخ یاد رہے”۔
(کتاب ھٰذا صفحہ 292)
اللّٰہ تعالٰی کی دینی خدمات کو ان کے لیے درجات کی بلندی کا باعث بنائے۔ ان کی قبر کو منور فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔
♦️نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں ذاتی معلومات کے علاوہ محترم سیف اللہ مغل صاحب کی کتاب “گلشن توحید و سنت” سے استفادہ کیا گیا ہے۔

🖋️طالبِ دعا: عبدالرحمٰن سعیدی 30 جنوبی سرگودھا

یہ بھی پڑھیں: ہم اہلِ محبت ہیں، فنا ہو نہیں سکتے