مژدہ یہی سنایا گیا تھا کہ اسحاق ڈار پاکستان کی کایا پلٹ کر رکھ دے گا، نون لیگ کے ” حبّ الوطن “ سیاست دان ٹاک شوز میں قوم کو یہی باور کرواتے تھے کہ پاکستان کے نصیب جگانے کے لیے اسحاق ڈار کا یہاں آنا ناگزیر ہے اور جیسے ہی اس دھرتی کا یہ ” عظیم سپوت “ اور ” معاشیات کا ماہر “ یہاں قدم رنجا فرمائے گا، روپے کی تمکنت اور کرّوفر میں اتنا اضافہ ہو جائے گا کہ ڈالر اِس کے سامنے ادب و احترام سے سَر جھکا کر کھڑا ہو جائے گا اور اگر ڈالر کو زنجیر بپا کر دیا گیا تو مہنگائی کے عفریت کے خوں خوار نوکیلے دانتوں کو توڑنا بہت ہی آسان ہو جائے گا۔نون لیگ کے ” دانش وَر “ یہ ” بشارت “ بھی سناتے تھے کہ اسحاق ڈار کی آمد کے بعد نہ صرف پٹرول کی قیمتوں کو قابو کرنا سہل ہو جائے گا، بلکہ اشیائے خورونوش کے نرخوں کی سَرکشی اور بغاوت بھی کچل کر رکھ دی جائے گی۔
مہنگائی کی چکّی میں پِسے مفلوک الحال عوام کو ہر پندرہ دن بعد ” مشکل فیصلے “ کرنے کی جان کاہ خبر سنا دی جاتی ہے۔آج تک کے تمام حالات گواہ ہیں کہ مشکل فیصلوں میں سے کوئی ایک فیصلہ بھی سیاست دانوں، وزرا اور بیوروکریٹس کے لیے مشکل ثابت نہ ہو سکا، ہر فیصلہ فقط عوام ہی کے لیے مشکل، دوبھر اور دشوار ثابت ہوتا ہے۔لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے افسران آج بھی بارہ سو تک بجلی کے یونٹ مفت استعمال کر رہے ہیں، ان کے لیے لگژری گاڑیاں اور پٹرول بالکل مفت ہیں، البتہ چھے سو روپے مزدوری لینے والا مزدور 50 روپے فی یونٹ بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کر کے غرہب کے لیے روٹی کا حصول بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے، جاں نثاراختر کا شعر ہے۔
شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو
جو بھی اقتدار سے علاحدہ ہوتا ہے، وہ اسی بات پر سیاست چمکا رہا ہوتا ہے کہ اُس کے دَورِ حکومت میں مہنگائی اتنی زیادہ نہیں تھی اور عوام اس کی اسی دلیل پر مطمئن و مسرور اُس کے حق میں گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔آج جو کام عمران خان کر رہا ہے، عین اس سے مماثل باتیں اور نعرے پی ڈی ایم کا یہی جتّھا لگایا کرتا تھا۔مہنگائی کا جو طوفان عمران خان کے دَور میں تھا، اب وہ طون، سیلابِ بلا خیز بن چکا ہے۔مہنگائی کے جواز میں اسحاق ڈار اپنے ” عقل و دانش سے لبریز دلائل “ سے مفلوک الحال لوگوں کے زخموں پر مرہم کبھی نہیں رکھ سکتا اور نہ ان کی اِن بے سروپا موشگافیوں سے خستہ حال لوگوں کے کسی ایک آزار کو بھی کم کیا جا سکتا ہے کہ ساری دنیا میں مہنگائی ہو چکی ہے۔
اگر آپ غلط فہمی کے اس بھنور میں پھنسے ہیں کہ آج اگر عمران خان وزیرِ اعظم ہوتا تو حالات بہت بہتر ہوتے، تو آپ اپنی ذات کو بھی دھوکے کے سوا کچھ نہیں دے رہے اور اگر آپ اِس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ عمران خان کے وزیرِ اعظم بنتے ہی، مہنگائی کی کمر توڑ دی جائے گی تب بھی آپ سراب کدے ہی کے باسی ہیں۔آج اگر عمران خان بھی وزیرِ اعظم ہوتا تب بھی حالات بالکل ایسے ہی ہونے تھے۔عمران کا ساڑھے تین سال سے زائد عرصے پر محیط اقتدار اس بات کا شاہد ہے کہ عمران خان نے بھی سیاست کی اسی بھیانک شکل کو پروان چڑھایا تھا، جو ماضی میں باقی تمام سیاست دانوں کا وتیرہ رہا ہے۔عوام وہ منظر دیکھ چکے ہیں کہ عمران خان نے آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق گلے سے نکالنے کے دل رُبا نعرے لگائے تھے اور پھر وہی عمران خان اسی آئی ایم کے سامنے ڈھیر ہوتا دیکھا گیا، جسے یُوٹرن جیسے دیدہ زیب نام سے نواز گیا۔
اب لندن سے بھی دل کے مریض کی کچھ ” رَس بھری “ صدائیں آنے لگی ہیں۔آج پی ٹی آئی کے گھبرو جوان مہنگائی کے خلاف احتجاج کناں ہیں، کَل پی ڈی ایم کا انقلاب آفریں لشکر مہنگائی کو مُلک و قوم کے لیے ناسور بتا رہا تھا۔بہ الفاظِ دیگر کل پی ٹی آئی، مہنگائی کو سابقہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دے رہی تھی اور آج پی ڈی ایم، مہنگائی کو سابقہ حکمرانوں کی نااہلی کا تازیانہ ثابت کر رہی ہے۔ہاتھیوں کی اس لڑائی نے عوام اور مُلک کا اس انداز میں بھرکس نکال کر رکھ دیا کہ اب بہتری کی امیدیں دَم توڑنے لگی ہیں۔نئی گندم آنے میں فقط ایک مہینا رہ گیا ہے، پاسکو کے سارے گودام گندم سے بھرے ہُوئے ہیں مگر عوام آٹے کو ترس رہے ہیں۔اگر یہ گندم، عوام کے لیے نہیں تو پھر کس مقصد کے لیے ذخیرہ کی جاتی ہے؟ غربت سے بلکتے اور تڑپتے عوام کے آزار اور مصائب کی ذرا سی بھی کسک اگر ان سیاست دانوں کے دل میں موجود ہوتی تو کم از کم پاسکو کی گندم ان غریبوں اور مفلسوں میں ضرور تقسیم کر دی جاتی، ریاضؔ خیرآبادی نے کہا تھا۔
مفلسوں کی زندگی کا ذکر کیا
مفلسی کی موت بھی اچھی نہیں
مریم نواز پتا نہیں کس زعم میں مبتلا ہو کر یہ کَہ رہی ہے کہ ” مُلک سے مہنگائی اور عمران خان کو اکھٹے اٹھا کر باہر پھینک دیں گے “ عمران خان کو ” منہگائی خان “ کا نام دینے والے یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ آج کی اس منہ زور مہنگائی کی وجہ موجودہ وفاقی حکومت کی نالائقی کے سوا کچھ بھی نہیں، نادم ندیم کا شعر ہے۔
اِن سے امّید نہ رکھ، ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے بھی مَحبّت نہیں کرنے والے