یہی عقیدہ ایک مسلمان کا ہونا چاہیے 

یہ وہ الفاظ ہیں جو آج کل بالعموم مسلمان نوجوانوں کے منہ سے سنائی دینے لگے ہیں جب کہ معاملہ کچھ ہی وقت پہلے ایسا نا تھا۔ خاصکر جب کہ ابھی انڈیا کے ایک مشہور بیٹر نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے تو نوجوان تو جیسے صدقے واری جا رہے ہیں۔
کیا کچھ عرصہ پہلے تک ان چیزوں کا نا سنائی دینا محض میڈیا کا پھیلاؤ نا ہونے کی وجہ سے تھا؟
یا کوئی اور وجہ بھی تھی؟
یقینا دوسری وجہ بھی تھی جس کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔
مومنوں کے ثابت شدہ عقائد میں سے ایک عقیدہ الولاء والبراء ہے۔ یہ عقیدہ دوستیوں، محبتوں، یارانوں اور دللگیوں کو سمت دینے (ڈائریکٹ کرنے) میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے مطابق بندہ کسی کی طرف مائل ہونے سے پہلے، کسی کی محبت دل میں پالنے سے پہلے اور کسی کو دل میں جگہ دینے سے پہلے لازم یہ دیکھے گا کہ کیا اسلام اس بندے سے محبت کی اجازت دیتا ہے؟ کیا یہ بندہ اس قابل ہے کہ اسے مومن کے پاک دل میں رکھا جائے؟
اس کے مطابق ایک مسلمان مسلمان سے محبت رکھے گا۔ اسی عقیدے کے مطابق کافر سے تعلق کی اصل بغض ہے(الا یہ کہ کسی خاص فرد سے حسن سلوک کی کوئی وجہ مثلا پڑوسی ہونا، اس کا آپ پر کوئی احسان یا کوئی اور وجہ موجود ہو)۔ چنانچہ یہی عقیدہ ایک بدعتی سے نفرت کا درس دیتا ہے۔ یہی عقیدہ ہے، جو مسلمان کو انسانیت کی بنیاد کی بجائے اسلام کی بنیاد تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
اس عقیدے کے دلائل میں سے چند ذکر کیے جاتے ہیں:
سورہ آل عمران میں اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:
آیت نمبر: 28

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ:
مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں یہ ان کے شر سے کس طرح بچاؤ مقصود ہو اللہ تعالیٰ خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔
اللہ تعالی سورہ مجادلہ میں فرماتے ہیں:
آیت نمبر: 22

لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ:
اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبتیں رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں، یہ خدائی لشکر ہے آگاہ رہو بیشک اللہ کے گروہ والے ہی کامیاب لوگ ہیں۔
اسی طرح سورہ ممتحنہ میں فرماتے ہیں:
آیت نمبر: 1

يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ۔۔۔۔الخ

ترجمہ:
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں۔۔۔۔ الخ
اسی طرح سورہ نساء میں فرماتے ہیں:
آیت نمبر: 89

وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا

ترجمہ:
ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہوجاؤ، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو انہیں پکڑو اور قتل کرو جہاں بھی ہاتھ لگ جائیں خبردار ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا۔
احادیث میں وارد چند ادلہ بھی پیش خدمت ہیں:

1 حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : ” مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ، وَمَنَعَ لِلَّهِ ؛ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ “.
أخرجه أبو داود في “السنن”، أول كتاب السنة باب الدليل على زيادة الإيمان ونقصانه (5/ 42) رقم (4681).

وصححه الأباني
کہ جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اور اللہ کے لیے بغض رکھا، اور اللہ کے لیے(کسی کو کچھ) عطاء کیا اور اللہ ہی کے لیے (کسی کو کچھ دینے سے ہاتھ) روکا۔ تو تحقیق اس نے اس نے ایمان کو مکمل کرنے کی سعی کرلی۔

2 أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ جَرِيرٍ قَالَ : بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، وَعَلَى فِرَاقِ الْمُشْرِكِ.
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ أَبِي نُخَيْلَةَ ، عَنْ جَرِيرٍ قَالَ : أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
أخرجه النسائي في “المجتبى”، كتاب البيعة باب البيعة على فراق المشرك (7/ 147) رقم (4175).

وصححه الألباني
جریر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے بیعت اس بات پر لی کہ میں نماز قائم کروں، زکاة ادا کروں، ہر مسلمان سے نصیحت کا معاملہ رکھوں اور ہر مشرک سے الگ تھلگ ہو جاوں۔
(—دوسری سند—) جریر بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا (اور آگے اسی طرح حدیث بیان کی)۔
چنانچہ ان ادلہ کے ذکر کے بعد کسی بھی مسلمان کو ایک مرتبہ ضرور اپنے دل میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ آیا میرے دل میں کسی ایسے انسان کی محبت تو نہیں جس سے میرا رب، میرا رسول اور مسلمان عموما بغض رکھتے ہیں؟؟
اب جبکہ یہ بات کہی جا چکی کہ کافر سے تعلق میں اصل اس سے نفرت/بغض ہی ہے تو اصل اپنی جگہ تب تک قائم رہے گی جب تک اس کے لیے کوئی سبب سقوط نا آجائے(جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہمسائیگی وغیرہ)، چاہے تعلق دنیاوی اعتبار سے ہو یا دینی اعتبار سے، مالی اعتبار سے ہو یا فین فالوونگ کے اعتبار سے۔ یہ اصل ہر ہر جگہ اپنی اسی صورت میں موجود ہی رہے گی۔
اور یہی وہ وجہ تھی جس کا شروع میں ذکر کیا کہ اس عقیدے کا رسوخ ہمارے دلوں میں پہلے زیادہ تھا جو تذکیر نا ہونے کی وجہ سے شاید کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے اور اس کے مظاہر جو نظر آ رہے ہیں وہ سب ہمارے سامنے ہیں کہ کبھی کوئی کسی اداکار کی خودکشی یا موت پر RIP یعنی قبر میں آرام ملے کی دعا دے رہا ہے تو کوئی ریٹائرمنٹ پر بھلائی کی دعائیں دے رہا ہے۔
الله المستعان وإليه المشتكى

حافظ نصر اللہ جاويد

یہ بھی پڑھیں: سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل