یحیی السنوار کی ادبی و فکری کاوشیں

(ناول نگار، ناقد اور مترجم)

یحیی السنوار کی زندگی کا ایک منفرد پہلو ان کی مسئلہ فلسطین سے متعلق وہ خدمات ہیں جو انہوں نے ایک مصنف اور مترجم کی حیثیت سے انجام دیں۔ جہاں وہ حماس کے مرکزی رہنما بن کر ابھرے، وہاں وہ قلم کے مجاہد بھی رہے۔ ان کی چار اہم تصانیف اور عبرانی سے عربی میں ترجمہ کردہ چار کتابیں ان کی فکری اور ادبی خدمات کا حصہ ہیں۔
ان کی تصانیف میں سب سے زیادہ معروف ناول “الشوک والقرنفل” ہے۔ یہ کتاب فلسطینی مزاحمت کے آغاز سے لے کر پہلی تحریک تک کے واقعات کو بیان کرتی ہے۔ انہوں نے نہایت مہارت سے فلسطینی جدوجہد کی تصویر کشی کی ہے۔ کتاب کے مقدمے میں وہ لکھتے ہیں:
“یہ میری ذاتی کہانی نہیں ہے، اور نہ ہی کسی ایک شخص کی کہانی ہے، اگرچہ اس کے تمام واقعات حقیقی ہیں؛ ہر واقعہ یا واقعات کا مجموعہ کسی نہ کسی فلسطینی کا ہے۔ تخیل صرف اس حد تک ہے کہ اسے ناول کی شکل دی گئی، تاکہ یہ کسی خاص کہانی اور اس کے کرداروں کے گرد گھومے۔ اس کے علاوہ سب کچھ حقیقی ہے، جو میں نے خود جیا ہے، اور بہت کچھ ان لوگوں کے منہ سے سنا ہے جو اس زمین کے اصل مکین ہیں۔”
السنوار کے ترجمہ کردہ کتابوں میں سب سے اہم “الأحزاب الإسرائيلية” ہے، جو 1992 میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب اسرائیلی سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات اور تضادات پر روشنی ڈالتی ہے اور اس نے السنوار کو اسرائیلی سیاست اور سکیورٹی اداروں کی گہری تفہیم عطا کی۔ یہ ان کی فکری بصیرت کی علامت ہے کہ انہوں نے دشمن کی کمزوریوں کو نہایت باریکی سے سمجھا اور فلسطینی مزاحمت کو مضبوط کرنے کے لیے ان سے استفادہ کیا۔
شاباک (اسرائیلی داخلی سکیورٹی ایجنسی) کے سربراہ کارمی غیلون کی دو کتابیں “شاباک بین الانقسامات” اور “شاباک بین الأشلاء” بھی السنوار کے ترجمہ کردہ اہم کاموں میں شامل ہیں۔ یہ کتابیں ان کے جیل کے دنوں میں ترجمہ کی گئیں تاکہ دیگر قیدیوں کو اسرائیلی سکیورٹی اداروں کے حربوں اور سازشوں سے آگاہ کیا جا سکے۔ ان کتابوں نے السنوار کو اسرائیلی سکیورٹی اداروں کی حکمت عملی اور طریقہ کار کو سمجھنے میں مدد دی۔
ایک اور اہم کتاب جس کا السنوار نے عبرانی سے ترجمہ کیا، “القادم لقتلك استبق واقتله” ہے، جس کے مصنف شاباک کے سابق سربراہ یعقوب بیری ہیں۔ یہ کتاب شاباک کے طریقہ کار اور اسرائیلی سکیورٹی کے اندرونی پہلوؤں کو آشکار کرتی ہے۔ یہ ترجمہ ان کے قید کے دوران کیا گیا تھا۔
السنوار کی دیگر تصانیف میں آزاد قیدی اشرف البعلوجی کی مزاحمتی کارروائی پر مبنی کتاب شامل ہے، جو مقبوضہ شہر یافا میں ہوئی تھی۔ یہ کتاب فلسطینی مزاحمت کی ایک اہم کارروائی کو دستاویزی شکل دیتی ہے۔
ان کی ایک اور تصنیف “المجد” شاباک کی تحقیقات پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے شاباک کے کام کرنے کے طریقے، معلومات اکٹھا کرنے کے حربے اور قیدیوں سے اعترافات لینے کے لیے استعمال ہونے والے جسمانی و نفسیاتی طریقوں پر گہری روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب ان کی فلسطینی مزاحمت میں گہرے تجربات اور وابستگی کا نچوڑ ہے، خاص طور پر جب وہ شیخ احمد یاسین کے زیر قیادت غزہ میں اسرائیلی ایجنٹوں کو بے نقاب کرنے کے لیے سرگرم تھے۔
السنوار کا ایک اہم تنقیدی مطالعہ “حماس: التجربة والخطأ” حماس کے اندرونی تجربات اور غلطیوں پر روشنی ڈالتا ہے، جو بعد میں ان کے لیے غزہ کی قیادت سنبھالنے میں مفید ثابت ہوا۔ یہ کتاب ان کی سیاسی بصیرت اور فکری گہرائی کی عکاسی کرتی ہے۔
یحیی السنوار کی زندگی کے یہ پہلو اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ محض ایک جنگجو نہیں بلکہ ایک دانشور اور مترجم بھی تھے، جنہوں نے مسئلہ فلسطین کی مختلف زاویوں سے خدمت کی۔
اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے۔

اسد اللہ میر الحسنی

مختلف ویب عربی ویب سائٹس سے مستفاد

یہ بھی پڑھیں: یحیی سنوار کے آخری لمحات، اور قدرت کے کرشمے