یہ دکھ کھا جائے گا ہمیں

اسرار سیفی کا شعر ہے:
کیا کہیں کس سے کہیں رنجش و آفات کا غم
اب سہا جاتا نہیں گردشِ حالات کا غم
سیلاب گزیدہ لوگوں کے اردگرد درد و غم کی اتنی بڑی بڑی فصیلیں کھڑی ہو چکی ہیں کہ جن کے حدود اربعہ کا تعیّن کرنا ہی محال ہے، اُن کی آہوں اور سسکیوں کی شدت کو جاننا بھی کارِ محال ہے۔ فی الحال شاید ہمارے گمان کدے میں تباہی اور بربادی کا ایک عارضی سا منظر ہے، مگر اِس منظر کے پس منظر میں ناداری اور مفلسی کا ایک دل فگار منظر بھی ہے جو طویل عرصے تک ان تباہ حال لوگوں کے وجود کو نوچتا رہے گا۔افلاس کی باس برسوں تک اُن کے آس پاس منڈلاتی رہے گی۔ مانا کہ آج سیلابی رَیلوں میں گھرے آفت زدہ لوگوں کے گریے، نوحے اور نالے ہماری سماعتوں کو گھایل کر رہے ہیں، تسلیم کہ آج اُن مصیبت زدوں کی چیخیں ہرشخص کے دل میں جذبہ ء ہم دردی کو انگیخت دینے میں کامیاب و کامران ٹھہری ہیں، اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آج 22 کروڑ سے زائد عوام اُن کے درد میں برابر کے شریک ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سیلاب کے بعد جو اذیتوں پر مشتمل عذاب آتا ہے وہ اتنی دیرپا نوعیت کا ہوتا ہے کہ برسوں تک گھٹن، اضطراب اور مفلسی اُن کے سامنے سینہ تان کر کھڑی رہتی ہیں۔ لاریب جب سیلاب آتا ہے تب مدد کرنے کا جنوں خیز سلسلہ عروج پر ہوتا ہے، سو وقتی طور پر وہ لوگ گھمبیر حالات کا مقابلہ کر ہی لیتے ہیں مگر سیلاب اترنے کے بعد کی صعوبتیں انھیں اچھی طرح نڈھال، اور نحیف و لاغر کر ڈالتی ہیں۔ ابھی چہار سُو اُن کی مدد کرنے کی گہما گہمی ہے، ابھی تو چارہ گری کا جذبہ، ایقان سے مزیّن ہے، ابھی تو ایمان کدے میں خلوص اور چارہ سازی کے جگنو مکمل آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہے ہیں، ابھی تو بھوک اور افلاس کے مارے لوگوں کے ساتھ ہماری مَحبّتیں مبہم یا مدھم نہیں پڑیں، ابھی تو ہماری چاہتوں کے تمام تر جریدے اُن دکھیارے لوگوں کی اعانت اور حمایت سے ترتیب دے دیے گئے ہیں مگر مَیں آپ کو واشگاف الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ روگ عارضی نوعیت کے ہرگز نہیں ہیں، جس ذہنی خلفشار اور جسمانی آزار میں وہ مبتلا ہیں وہ کئی سالوں پر محیط ہوں گے۔ ان تباہ حال لوگوں کے لیے طویل تکالیف کا سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ اب تو جوشِ ایمانی سے سرشار عوام الناس کا جمِ غفیر سیلاب کی اذیتوں کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہے مگر جو مصیبتیں سیلاب کے بعد شروع ہونے والی ہیں، وہ نہ صرف آج کی اذیتوں سے گہری ہوں گی بلکہ ان کا ادراک کر کے ابھی سے سدِباب کرنے کی تدابیر کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔ جِلد، معدے اور دیگر امراض کا موذی بلکہ مہلک لامتناہی سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ سیلاب کے بعد، سانس کی تنگی اور پھیپھڑوں میں انفیکشن پیدا ہو جاتا ہے، اسہال اور ہیضہ پھوٹ پڑتا ہے، ہیپاٹائٹس اے، بخار، زکام، نزلہ اور ڈینگی جیسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں، خواتین کے لیے مسائل کے انبار لگ جاتے ہیں۔یاور ماجد کا شعر ہے۔
کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے
کہانی تو چلے گی اختتامی باب سے آگے
1992 ء میں سیلاب آیا، پھر جون 2005 ء میں سیلاب نے ہمارا اچھا اچھا لہو چوس لیا، پھر 2007 ء میں سیلاب نے ہمیں برباد کر کے رکھ دیا اور اس کے بعد 2010 ء میں سیلابی رَیلوں نے تباہی مچا کر پاکستان کے کل رقبے کا پانچواں حصہ متاثر کر چھوڑا۔ 2013 ء اور 2014 ء میں بھی سیلاب بڑی آفات لے کر آئے۔ 2022 ء میں سیلاب نے ہمیں درد و الم پر مشتمل چرکے لگائے اور اب دیکھ لیں دو صوبوں کے لاکھوں لوگ سیلاب کے زیرِ عتاب آ چکے ہیں۔ ہر بار جب بھی سیلاب آتا ہے پہلے سے بڑی تباہی لے کر آتا، مگر احبابِ بست و کشاد نے اس آفت سے بچنے کے لیے آج تک کوئی تدبیر نہیں کی۔ مصحفی غلام ہمدانی نے کہا تھا۔
کوئی گھر بیٹھے کیا جانے اذیت راہ چلنے کی
سفر کرتے ہیں جب، رنجِ سفر معلوم ہوتا ہے
یکم ستمبر 2022ء کو بھی یونیسیف نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب کے باعث 30 لاکھ سے زاید بچے پانی میں پیدا ہونے والے امراض اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے بحران سے دوچار ہیں۔ 3 کروڑ 30 لاکھ افراد شدید متاثر ہیں، جن میں ایک کروڑ 30 لاکھ بچے شامل ہیں۔ 350 سے زاید بچوں کو پانی کے بے رحم موجیں بہا لے گئی تھیں، 1100 سے زیادہ افراد پانی میں غرق ہوئے تھے، 2 لاکھ 87 ہزار گھر مکمل طور پر اور 6 لاکھ 62 ہزار جزوی طور پر متاثر ہوئے تھے۔
سیلاب کا عذاب سہنا اتنا آسان تو نہیں ہُوا کرتا، برسوں تک انسان کی رگیں دُکھتی رہتی ہیں، ایک طویل عرصے تک معصوم بچوں کے چہرے کجلائے، کُملائے اور مرجھائے رہتے ہیں، لمحہ بہ لمحہ چنگھاڑتے سیلاب کی وحشت انسان کی سوچ کو نوچتی رہتی ہے، کُنجِ حسرت میں پھیلی اداسیاں اور بے چینیاں انسان کے ذہن کو بے بضاعتی اور بے رغبتی کا مسکن بنائے رکھتی ہیں۔ ہمارا وقتی طور پر اُن کی چارہ سازی کرنا ہرگز کفایت نہیں کرتا، ہم نے تو بڑی پامردی اور استقامت کے ساتھ اُن کی دل جوئی، اعانت اور کمک کرتے رہنا ہے۔ ہم نے اُن مصیبت زدوں کی فقط ڈھارس ہی نہیں بندھانی بلکہ اُن کے لیرولیر وجود پر ایسے پھاہے رکھنے ہیں کہ وہ سیلاب کے تمام دکھوں کو بھول جائیں۔
اک طرف سیلاب ہے دوجی طرف ہیں بارشیں
سسکیاں کتنی ہماری پانی بہا کر لے گیا
اب گناہوں کی معافی مانگ لیں رب سے حیات!
سب متاعِ زندگی پانی اٹھا کر لے گیا
ایک استاذ گل حسن کے تین رشتے دار سیلاب برد ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے۔ جن میں ان کی سات آٹھ سالہ بھانجی بھی شامل ہے، جسے سیلاب کی سفاک لہریں بہا لے گئیں، باقی دو نعشیں تو مل گئیں مگر ننھی کلی حلیمہ کی نعش آج تک نہ مل سکی۔ گل حسن نے اپنی بھانجی پر اپنے درد سے لدے آنسوؤں کو یوں ترتیب دیا ہے.
حلیمہ بی بی ہمیں معاف کر دینا
ہم نے تجھے بہت ڈھونڈا
تو ہمیں نہیں ملی
سولہ فٹ پانی میں کشتی کے ذریعے تیری تلاش بہت مشکل تھی
ہم نے پورے تین دن تجھے ڈھونڈا
ہم تھک گئے تھے
ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے
ہماری آنکھیں تھک چکی تھیں
ہماری نظر تک دھندلا گئی تھی
ایک ایک درخت کو دیکھا
ایک ایک جھاڑی میں ڈھونڈا
کماد کی ایک ایک شاخ کو تلاشا
وہ دُور کہیں کوئی کپڑا نظر آیا تو جا کر دیکھا
کہیں کوئی شاپر نہ چھوڑا
کوئی بوتل نہ چھوڑی
کئی کئی میلوں تک ڈھونڈا تمھیں
تُو تو ایک پھول جتنا تھی میرے جگر کا ٹکڑا
تیری موت ایسے لکھی تھی
ہم یہ بھی قبول کر چکے ہیں
تو مل تو جاتی
تیرا جنازہ پڑھتے
تجھے دفناتے تجھے مٹی دیتے
تُو تو ایسے تیر مار کر گئی ہے جو کبھی نہیں نکلنے والے
جہاں لوگ پانی سے ڈر کر بھاگ رہے تھے
ہم اسی پانی میں تیری خاطر پتا نہیں کتنی بار کود پڑے
جان کی پروا کیے بغیر ہم نے تجھے بہت ڈھونڈا
تو ہمیں نہ ملی
یہ دکھ کھا جائے گا ہمیں پوری زندگی
اللہ کرے تو زندہ ہو!
اللہ کرے تو کسی کو مل گئی ہو!
قیامت والے دن ملیں گے تجھ سے
ہم سے روٹھنا مت
ہمیں معاف کر دینا

(انگارے۔۔۔حیات عبداللہ)

یہ بھی پڑھیں: حالِ دل