خوف ایسا ہے کہ سینے چیر رہا ہے، صور پھونکا جا چکا ہے، دو ارب زمیں زادوں کے سینے داغوں سے دہک رہے ہیں، جوانوں کے روح و بدن میں قیامت کا زلزلہ بپا ہے تو بڑے بوڑھوں کی پیشانی کی لکیروں میں حیرانی سے زیادہ پریشانی نے پنجے گاڑ دئیے ہیں۔ ابھی ذرا پہلے بڑے بوڑھوں نے بڑا جگر تھام کے اور اپنی حدود ماپ کے بڑے مشکل سمجھوتوں کے ذریعے زخموں کے ساتھ زندگی جینے کی راہ نکالی ہی تھی کہ زخموں سے تنگ آکر شرارتی بچے نے مخالف قبیلے کو زور کا پتھر کھینچ مارا ہے، اب شور یہ پڑا ہے کہ بزرگوں کی داڑھیوں اور پگڑیوں،ان کے عافیت کدوں اور آرام دہ گدوں اور پھر سب سے بڑھ کر ان کی تجوریوں اور تجارتوں کا کیا بنے گا؟ ان کے ان وعدوں اور ارادوں کا کیا بنے گا،جو مخالف قبیلے کے سرپرستوں سے عہد باندھ کے پورے کرنے تھے۔ ان تاجوں اور شہزادوں کا کیا بنے گا، جنھوں نے ابھی کل ہی اپنی اپنی لکیروں کے دائروں میں حکمرانی کے آرام دہ تخت بچھائے تھے۔

یہ مشرق وسطی کی بات ہے۔ یہاں ایک قبیلہ آباد ہے۔یہ دنیا کاسب سے مشہور قبیلہ ہے۔عمر میں اگرچہ کم اور قلیل مگر تاریخی کردار اور قوت تسخیر میں کامل۔ یہ مگر ذرا پہلے کی بات ہے،جب ان کی قلت میں عزت تھی، پھر یہ کثرت میں ذلت نصیب ہوگئے۔قبائل کے مقابل یہ زمیں کا سب سے آخری قبیلہ ہے۔ جنھیں سب قبیلوں کی نااہلی کے بعد تاجوری عطا ہوئی تھی۔ نری کاغذی نہیں،اس کے لازوال عملی نمونے بھی تاریخ میں رقم ہوئے تھے۔ اک آسمانی مقدس دستاویز میں سب لکھا تھا۔جو لکھا تھا وہ زمیں پر کر دکھایا بھی گیا تھا۔ کچھ ایسا کرشمہ کہ جس جیسا واقعہ دنیا کی تاریخ میں نہ کوئی جادو اور نہ کوئی طاقت دکھا سکی تھی،انھوں نے مگر آسمانی نسخے کی بدولت کم ترین وقت و وسائل میں وہ طلسم کر دکھایا تھا،جو تاریخ میں کبھی نہ ہوسکا تھا۔ اب ان کے پاس رب کا دیا سب ہے۔آسمانی صیحفہ تو جو ہے سو ہے، جو وعدوں اور وعیدوں اور برکتوں اور تذکروں سے معمور و منور ہے۔ زمینی حیثیت میں بھی یہ کم نہیں۔ گننے لگیں تو یہ دو ارب ہیں۔ کل دنیا کا پچیس فیصد۔ دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ، 2050 تک جس کے بارے اغیار کا اندازہ ہے کہ یہ کرہ ارض کا سب سے بڑاقبیلہ ہو جائے گا۔ان کے پاس زمیں کا سب سے نفیس زر، زرخیر خطے اور ذہن ہیں۔ ایسی نوعیت کے کہ دنیا جن کے لیے پاگل ہوکے لڑ مرے۔ ان کی دولت پر دنیا راج کرتی ہے۔ان کے پچاس کے قریب ملک ہیں۔

ان کے ہزاروں وزیر و مشیران جنگ ہیں۔ ان کے کئی اکٹھ اور پلیٹ فارم ہیں۔ یہاں مشرق وسطی میں موجود ان کی ایک شاخ کو مگر اک ایسی قوم سے تنازع ہے۔ تاریخ میں جس سے قلیل و رسوا کوئی قوم نہیں رہی۔ وہ اتنی قلیل ہے کہ یہ سارے پھونک مار دیں تو وہ قوم ہوا میں اڑ جائے،یہ اکٹھے ہوکے آنکھیں دکھا دیں تو وہ قوم پگھل کے زمیں میں جذب ہو جائے،یہ سب کسی وضو کے بعد ایک ایک کلی کر دیں تو وہ قوم پانی میں ڈوب مرے۔اس قوم نے مگر ان کے سب سے پیاروں اور دلاوروں کو اس کائنات کسی بھی بدترین حیوان سے بھی گھٹیا زندگی دے رکھی ہے۔ زمیں کسی جیل میں ذلت کی ایسی زندگی نہیں، ان سے زمین اور زندگی چھین لی گئی۔ ان سے انسانیت اور آزادی سلب کر لی گئی۔ یہ واقعہ ہوئے ایک زمانہ ہوگیا۔ روزانہ یہ کٹتے اور مٹتے ہیں۔ روزانہ ان کے جسد کے کچھ حصے جسم سے الگ ہوکر دفن ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھار قبیلے کا کوئی بہت معزز بزرگ اپنی عزت کا بہت پھیلا شملہ آنکھوں سے ذرا سا ہٹا کے کہہ بھی دیتا ہے کہ اے ہمارے معزز دشمنوں ہماری کچھ تو درخواست سنو، کم از کم اتنا تو نہ مارو! کبھی کبھار تو انھیں مارنے میں وقفہ بھی کر لیا کرو کہ ہمارے ہاں تو منگل کے دن حیوانی گوشت کا بھی ناغہ ہوتا ہے، یہ تو پھر انسان ہیں ،اگرچہ کمتر انسان کہ ان کا تعلق ہمارے قبیلے سے ہے۔ ہاں سنو! ہمیں تمھارا انھیں اتنا مارنا پسند نہیں۔آخر ہم سے بھی لوگ پوچھتے ہیں۔

ذلت کا یہ سلسلہ ایک زمانے سے جاری ہے،بزرگوں کی یہ روش بھی ایک مدت سے جاری ہے۔ اب تو خیر سب نارمل ہوگیا تھا۔ انھیں زخموں کے معمول کو ہم نے زندگی باور کر لیا تھا۔ قاتل کے زور بازو کو اس کا حق مان لیا تھا۔ خیر اس میں کوئی ایسی بات بھی نہ تھی، دس پچاس اگر کہیں ہمارے کٹ بھی جائیں تو کیا فرق؟کتنے مار لیں گے؟ آخر ہم دو ارب ہیں۔ دو ارب کو کاٹنے میں بھی ایک زمانہ لگے گا۔ دنیا ہمیں ایسے کیسے معدوم کر سکتی ہے۔ پھر مگر ایک شرارتی بچہ اٹھا اور اس نے بزرگوں کی عزت اور ایگریمنٹ کے خلاف مخالف کیمپ میں پتھر اچھال دیا۔ جانے اس کے دل میں کیا آئی۔ شائد اس لئے کہ قاتل ان کے قتل کی وہ رفتار بڑھا دے، بڑے بوڑھوں کے ہاں جو معمول قرار پا چکی تھی۔ یہ پتھر لیکن مخالف قبیلے کو کم لگا ہے،اپنے قبیلے کو زیادہ لگا ہے۔ یہ پتھر ہمارے تیل کے خزانوں اور ایٹمی اسلحہ خانوں کو آ لگا ہے۔ یہ ہماری دو ارب تعداد کو آ لگا ہے۔ یہ ہمارے شملوں اور وردیوں کو آ لگا ہے۔ یہ پتھر ہماری عافیت کو آ لگا ہے۔ یہ پتھر ہماری بے حسی اور منصبی فرائض کو آ لگا ہے۔ لوگ اب ہمیں پوچھیں گے، کچھ کرتے کیوں نہیں؟ چنانچہ دو ارب لوگوں میں ہیجان ہے۔ دو ارب لوگ اس شرارتی بچے کو کوس رہے ہیں۔
اس سے مسئلہ ہائی لائٹ تو ہوا اور ہوگا مگر دو ارب لوگ اور ان کے معززین ایسے بھی تھڑدلے نہیں کہ اتنی سی بات پر دنیا کو بے آرام کریں۔ ویسے بھی دنیا کے جتنے قانون ہیں، وہ سارے ظالم کے ساتھ کھڑے ہونے کی تائید کرتے ہیں۔ ان میں مظلوم کی مزمت تو کی جا سکتی ہے، ہاتھ پکڑا اور مروڑا نہیں جا سکتا۔
ہاں اتنا بھی نہیں کہ کچھ بھی نہ ہوگا۔ کچھ مزمت ہوگی۔ کچھ لوگوں کی لیڈری چمک اٹھے گی۔ کچھ کی گاڑی اور کچھ کی گاڑی میں فیول بڑھ جائے گا۔ کچھ کی عوام میں اور کچھ کی سرکار دربار اور اخبار میں للکار اور پکار بڑھ جائے گی۔ کچھ کے نام کا اعتبار, وقار اور روزگار بڑھ جائے گا۔ کچھ کے فالورز اور کچھ کے ڈالرز بڑھ جائیں گے۔ باقی یہ اس زخم کے مندمل ہونے کی کوئی سبیل ہوگی؟ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ یہ کوئی قوم موسی و عیسی تھوڑی ہے کہ اس کا مسئلہ حل ہوگا ۔ آخر یہ امت محمد ہے۔ جس کے پیروکاروں نے اپنے نبی کی پیش گوئی سچ بھی ثابت کرنی ہے۔ وہی جہد سے فرار اور عافیت میں قرار پانے اور وہی وہن اور لذت کام و دہن میں غرق ہونے کی پیش گوئی ،وہی کثرت میں ذلت پانے کی پیش گوئی۔ وہی بھوکوں کے ہاتھوں آئے تر نوالے کا کردار نبھانے کی پیش گوئی۔ یہ یہی کریں گے، یہ بس یہی کریں گے۔ عاشق نبی ہیں،سو اس فرمان سے ہٹ کر فاسق نبی کیسے ہو جائیں گے؟ ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ ہو بھی کیسے سکتا ہے!
یعنی
رنگ و رس کی ہوس اور بس
مسئلہ دست رس اور بس

یوسف سراج