کسی عیسائی کو Merry Christmas کہنا یا غیر مسلموں کے کسی بھی مذھبی تہوار پر مبارکباد دینا ہرگز درست نہیں ہے اگرچہ وہ آپکے تہوار پر مبارکباد دیں۔
یہ بھی ایک قسم کا سمجھوتہ اور مداھنت ہی ہے کہ وہ اگر اپنے دین کے معاملے میں لچک اور چھوٹ دکھا رہے ہیں تو آپ بھی دکھانا شروع کردیں۔ کچھ چیزیں بنیادی طور پر انتہاء پسندانہ حد تک نا قابل سمجھوتہ ہوتی ہیں اور مذھب کی بنیادی باتیں بھی انہی میں سے ایک ہیں جیسا کہ عقیدہ توحید و رسالت۔
“مَیری کرسمس” کا معنی متعین کرنے میں بھلے غلطی لگی ہو لیکن “مَیری کرسمس” انہی لوگوں کیلئے مکمل طور پر قابل ذکر ہوسکتا ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو عقیدہ تثلیث کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایسا ہی ہوتا ہے یہ کوئی راکٹ سائنس یا کوانٹم فزکس نہیں جسکی پچیدگی کا سہارا لیا جائے اور “مَیری کرسمس” کی گنجائش نکالی جائے اور یہ میلاد النبی کے جیسا بھی ہرگز نہیں ہے کہ جس میں صرف ایک نبی کے آنے کی خوشی ہے اس تہوار کے پس پردہ مقاصد میں عقیدہ تثلیث ہے۔
“میری کرسمس” کہنا اگرچہ کفر تو نہیں کیونکہ آپکا یہ ارادہ نہیں تھا لیکن حرام ضرور ہے کیونکہ اسکی شناعت پر آپکو متنبہ کیا گیا ہے جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے “احکام اھل الذمہ” میں یہ فتویٰ نقل کیا ہے.!
باقی پچیس دسمبر کو مسیح علیہ السلام کا پیدا ہونا بھی ثابت نہیں ہے پہلے رومن عیسائی شہنشاہ کونسٹنٹائن (Constantine) جس نے رومن سلطنت کا سرکاری مذھب شرک سے عیسائیت کیا تو اسی نے عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے پورے تین سو سال بعد یہ تہوار عوامی لیول پر منانا شروع کیا اور اس وقت عیسائی کلینڈر چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے شروع ہوا جبکہ یہ بنایا بہت دیر بعد گیا ہے تو کئی ایک غلطیاں لگی ہیں جس میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے حوالے سے بھی غلطی لگی ہے۔
باقی اگر یہ محض ایک منتخب کردہ دن ہے کہ دل چاہا کہ اس دن کو مقرر کرلیا جائے تو مقرر کرلیا گیا تو اس دن کو اسی حیثیت سے منانا چاہیے۔ مگر یہ دن ہر اعتبار سے ایک منتخب کردہ دن نہیں، ایک باقاعدہ برتھ ڈے کی ہی حیثیت سے منایا جاتا ہے اور اس کے پسِ پردہ جو تاریخی غلطی ہے، اس پر توجہ دلانا ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: کسی بھی نبی کی پیدائش پر خوش ہونا طبعی مگر
اس پر مبارکباد دینا بھی ایک فضول اور رسمی چیز ہے.اس سے نہ کوئی تالیفِ قلب کا فائدہ ہے، نہ اسلام کی امیج بہتر ہوگی اور وہ سارے فوائد جو لوگ ان مبارکبادوں کے گنواتے ہیں، کچھ بھی حاصل ہونے کی توقع نہیں ہے۔
یہ ایسے ہی ہے کہ کل کو ملحدوں کا ایک گروہ کسی مشھور فلاسفر یا سائنٹسٹ کے دن کو منانا شروع کردے اور کہے کہ یہ کوئی مذھبی تہوار نہیں ہے بلکہ ہمارا تو کوئی مذھب ہی نہیں ہے تو کیا اسکو بھی سیلیبریٹ کرنا تالیفِ قلب میں شمار ہوگا؟ ہرگز نہیں کیونکہ اس تہوار کے پس پردہ مقصد خدا تعالیٰ کی نفی ہے اور کوئی بھی نظریہ اپنا ایک مقصد رکھتا ہے اور اس نظریہ کے گروہ کا کوئی تہوار اس نظریہ کی عکاسی ہی ہوتا ہے اسکے سوا کچھ نہیں!
یہ کوئی سیاسی نظریہ یا سلوگن بھی نہیں جس پر آپ سماجی رواداری قائم کریں یہ چیز دوسروں کے مذہب کا شعار ہے۔ وہ مذہب جس سے آپ بنیادی سطح پر اختلاف رکھتے ہیں اور آپ کا اختلاف بھی سنگین نوعیت کا ہے. مثلاً اگر ایک علامت، جھنڈا یا تہوار ہم جنس پرست گروہ مقرر کرلیں بھلے اس تہوار میں ہم جنس پرستی کا عنصر صراحتاََ موجود نہ ہو، اس کو منانے سے طبیعت میں اکتاہٹ سی ہوگی کیونکہ یہ سب دور جدید میں نیا نیا ہے اور سبھی اسکی تنقیح کو سمجھتے ہیں +LGBTQ کے حوالے سے اگر اسکی شناعت دلی طور پر محسوس کرتے ہیں اور اسکی محض علامتوں کی بھی مخالفت کرتے ہیں تو اس میں بھی نظریاتی اختلاف اور توحید کے تقدس کو محسوس کریں۔
عمیر رمضان