نوجوان لڑکیوں کی جنسی بے راہ روی اور والدین کی غلطیاں
اگر آپ کی بہن یا بیٹی ہوسٹل میں رہتی ہے تو ایک بار یہ تحریر ضرور پڑھیں۔

نوجوان لڑکوں کی شادی کا مسئلہ اٹھایا تو یونیورسٹی کی ایک سٹوڈنٹ کا میسیج آیا۔ وہ اسی کی زبانی بیان کر دیتا ہوں۔ اس کا کہنا تھا:
سر لڑکے اپنی شادی کا رونا رو رہے ہیں حالانکہ وہ جب چاہیں جیسے چاہیں جس کے سامنے چاہیں اپنی شادی کی بات کر سکتے ہیں۔ والدین، دوست، رشتہ دار یہاں تک کہ فیس بک پر بھی اپنی شادی کی بات کھلے عام کر سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا مرد مکمل طور پر بااختیار ہے۔ لیکن نوجوان لڑکی اپنی شادی کا کھلے عام تو کیا، اشاروں کنایوں میں بھی ذکر نہیں سکتی۔ حالانکہ جتنی ضرورت مرد کو شادی کی ہے بالکل اتنی ہی عورت کو بھی ہوتی ہے۔ اب لڑکے اپنی شادی کی بات کر کے کم از کم اپنی فرسٹیشن تو نکالتے رہتے ہیں لیکن لڑکیا ں تو وہ بھی نہیں کر سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے ناجائز تعلقات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لڑکیوں کو لگتا ہے کہ جہیز اور دوسری معاشی و معاشرتی پابندیوں کی وجہ سے یہ ناجائز تعلقات ایک آسان راستہ ہے۔ پھر اس معاشرے کا مرد شوہر بن کر جو پابندیاں لگاتا ہے وہ بوائے فرینڈ بن کر کبھی نہیں لگاتا۔ والدین بھی اکثر یہ کہہ کر رشتہ ٹھکرا دیتے ہیں کہ ہماری بیٹی ابھی پڑھ رہی ہے اور لڑکی اس پر بول بھی نہیں سکتی کہ میری ضرورت ہے، پڑھائی میں جاری رکھوں گی مگر میری شادی کر دیں۔
پڑھائی ضروری ہے لیکن شادی سے جسمانی ضرورت جائز طریقے سے پوری ہونی ہے اور پڑھائی اس میں رکاوٹ نہیں ہے۔
والدین اکثر یہ بھی کہہ دیتے کہ میری بیٹی تو شریف ہے وہ تو کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔تو شریف بیٹی کی ضرورت نہیں ہے؟ بلوغت کے بیس سال بعد تک بھی اس کی ضرورت جائز طریقے سے پوری نہیں ہو گی تو وہ شرافت کب تک سنبھال پائے گی؟
اگر والدین صرف ایک بار کسی بھی گرلز ہاسٹل میں آکر حالات دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے کہ ہماری نوجوان نسل کیا کر رہی ہے۔ اکثر والدین تو سرکاری یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز میں اپنی بیٹیوں کو چھوڑ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ سرکاری یونیورسٹی ہے، سرکاری ہاسٹلز ہیں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ٹھیک ہے سرکاری یونیورسٹیوں میں مغرب سے پہلے واپس آنا ہوتا ہے لیکن دن نکلنے سے مغرب تک کیا کم وقت ہوتا ہے؟ کیا کبھی معلوم کروایا کہ آپ کی بیٹی نے کتنی کلاسز لی ہیں؟ آپ کی بیٹی یقیناً شریف ہو گی لیکن یونیورسٹی کے آس پاس ریسٹورنٹس اور ہوٹلز نوجوان لڑکے لڑکیوں سے بھرے ہوتے ہیں، یقیناً وہ بھی آپ میں سے ہی کسی نہ کسی کی بیٹیاں ہی ہیں، وہ لڑکیاں لڑکے کسی دوسرے سیارے کی مخلوق تو ہیں نہیں۔ والدین کبھی اس بات پر ہی غور کر لیں کہ یونیورسٹیوں کے نزدیک ہوٹلز کا کرایہ پورے دن کی بجائے گھنٹوں کی صورت میں کیوں ہوتا ہے تو صرف یہی بات ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہوگی۔
سرکاری ہاسٹلز میں گھر جاتے ہوئے تو فون پر بات کرواتے اور پھر جانے دیتے لیکن کبھی آتے ہوئے بھی فون کرکے معلوم کروایا کہ آپ کی بیٹی آج رات ہاسٹل پہنچی یا نہیں۔ میں اچھے سے جانتی ہوں کہ اکثر لڑکیوں نے جب بھی کہیں جانا ہو تو پہلے گھر چلی جاتی ہیں اور پھر واپسی پر ہاسٹل آنے کی بجائے اپنے پروگرام پورے کر کے دوچار دن کے بعد ہی ہوسٹل آتی ہیں۔ جب بیٹیاں گھر سے ہوسٹل آئیں تو بیٹی سے کال کر کے پوچھنے کے ساتھ ساتھ ایک بار شام کو ہوسٹل بھی کال کر کے پوچھ لیں کہ بیٹی ہوسٹل پہنچ گئی ہے۔
پھر کلاس کے ٹورز کے نام پر گھر سے اجازت لی جاتی ہے اور ہاسٹل سے اجازت لی جاتی ہے لیٹ آنے کی یا پھر ایک دو دن کے بعد آنے کی لیکن کبھی ڈیپارٹمنٹ سے بھی پوچھا کہ کیا واقعی کلاس کا کوئی ٹور گیا بھی ہے یا نہیں۔
اگر ایسی کوئی بات معلوم ہو جائے تو آپ کی پابندیاں لگانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ آپ کی آنکھوں پر بندھی پٹی شاید اتر جائے کہ جوان اولاد کو صرف پیسے دے دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ شادی کی صورت میں ان کی ایک جائز ضرورت اور بھی ہے جسے اگر جائز طریقے سے پورا نہیں کریں گے تو پھر وہ اپنے راستے خود نکال لیں گے۔
پانی سے ہی کچھ سیکھ لیں کہ اگر اسے آپ راستہ دیں گے تو وہ اسی راستے پر چلے گا جو آپ نے اسے دیا ہو گا لیکن اگر آپ بندھ باندھ دیں گے تو کچھ وقت تو آپ اسے روک سکتے ہیں لیکن پھر وہ کہیں نہ کہیں سے ادھر ادھر بہنا شروع ہو جائے گا۔ پھر آپ جتنی بھی کوشش کرتے رہے وہ آپ کے قابو میں نہیں رہنا۔ نکاح کو آسان کریں اور بلوغت کے فوراً بعد نکاح کو رواج دیں۔ لڑکیوں کے لیے تو برسر روزگار ہونا بھی شرط نہیں ہے کیونکہ ان پر کوئی معاشی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔
اللہ آج کل کے والدین کو کچھ سوچنے کی توفیق دے۔

ڈاکٹر عدنان نیازی