یوں مسکرا نہ دیکھ کے، ہاں مسکرا کے دیکھ
دل کسی بھی ذی شعور اور ذی فہم کا ہو، محبت کے آبگینوں سے منوّر اور مزیّن ضرور ہوتا ہے۔ ہر انسان کا سینہ الفتوں کے آبشار اور چاہتوں کے انبار سے لدا پھندا ہوتا ہے۔ البتہ محبتوں اور چاہتوں کو لگام ڈال کر درست اور مسقیم راہوں پر گامزن کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوا کرتا۔ لوگ محبتوں کے نام پر غلط راستوں پر بھٹکتے لڑھکتے کہیں دُور ایسے تپتے ریگ زاروں اور سلگتے بیابانوں میں نکل جاتے ہیں کہ جہاں سایہ ء عاطفت تک کہیں دِکھائی نہیں دیتا۔ جہاں راہوں کی خاردار جھاڑیاں ان کے قدموں سے لے کر دل ودماغ تک کو لیرولیر اور حال فقیر بنا ڈالتی ہیں۔ پھر وہ بدنامی کی چوکھٹ پر پڑے سسکتے تڑپتے اور حالات کو کوستے رہتے ہیں۔ کسی”سراب“ کو آئیڈیل کا نام دے کر اور سنگین دشنام طرازیوں اور خشت باریوں کے دکھ درد جھیل کر انھیں احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ ” سراب “ تو سراسر عذاب تھا۔ پھر محبتوں کا وہی بحرِ بے کراں جس کی ساری منہ زور طغیانیاں اور سرکش موجیں انھیں بے کل اور مضطرب کیے رکھتی تھیں، ان میں اتنا گہرا سکوت آتا ہے کہ پھر اس میں کسی ٹھہرے پانی کی طرح بدبوؤں کے بھبکے امڈتے ہیں۔ یہ کج روی انسان کو سنسان گلیوں اور ویران گھپ اندھیروں میں لے جاتی ہے۔ وہ ان میں اس قدر ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے کہ انسانیت تک ماند پڑ جاتی ہے۔ اسے اپنی شریکِ حیات سے محبت رہتی ہے نہ بچوں سے پیار۔ پھر اس میں درندگی اور حیوانیت دَر آتی ہے۔ وہ کسی بھیڑیے کی مانند اپنے اہلِ خانہ کو کھانے دوڑتا ہے۔ کراچی میں اصغر نامی شخص نے اپنی بیوی اور تین بچوں پر تیزاب ڈال کر جھلسا ڈالا۔ملتان کے نواح میں میں ایک شخص نے فائرنگ کر کے اپنی بیوی بچوں کو قتل کر دیا۔ پشاور میں عزت خان نامی شخص نے گولی مار کر اپنی اہلیہ کو قتل کر دیا۔ ٹھینگی میں محمد شفیق نامی شخص نے اپنی 22 سالہ بیوی نازیہ، جو کہ ایک بچے کی ماں تھی، کو ذبح کر ڈالا۔
اسلام سے دُوری کا شاخسانہ ہے کہ اَن گنت گھروں کی خوں چکاں داستانیں ایسے ہی ہولناک حالات سے بھری پڑی ہیں۔خاوند کی بیوی سے بے رغبتی پہلے معمولی مسائل کو جنم دیتی ہے، پھر یہی مسائل جیون ساتھیوں کے درمیان ایسی خلیج حائل کر دیتے ہیں کہ جسے پاٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔شیطان دونوں جانب دلوں کو کھنڈر بنا ڈالنے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔ وہ بیوی کے دل میں اس احساس کو خوب انگیخت دیتا ہے کہ وہ اپنے ماں، باپ، بہن اور بھائیوں کو چھوڑ کر آئی ہے اور شوہر کے گھر میں دن بھر نوکرانیوں کی طرح دھندا پیٹتی ہے سو معافی کا خواستگار اس کے خاوند کو ہونا چاہیے۔ دوسری جانب شوہر کو اپنے گوہرِ نایاب ہونے کا اتنا زعم ہوتا ہے کہ وہ اپنی کسی غلطی پر بھی معذرت کرنا اپنی توہین اور تضحیک گردانتا ہے۔ کسی بھی پَتی اور پتنی میں رنجشوں کی ابتدا بول چال چھوڑ دینے سے ہوتی ہے۔حالاں کہ ایسا کرنا ایسی فاش غلطی ہوتا ہے کہ اس سے غلط فہمیوں کے ڈھیر لگتے چلے جاتے ہیں، اور پھر یہ غلط فہمیاں کسی آکاش بیل کی مانند محبتوں سے ہرے بھرے آنگنوں کو مغموم اور مسموم کر ڈالتی ہیں۔ بنیادی وجہ اور سبب یہ ہوتا ہے کہ فریقین کے دل محبتوں سے بالکل تہی ہوتے ہیں۔ اگر واقعی محبت ہو تو محبتوں میں انا کا بے ڈھنگا اور بدنما خول ہوتا ہی نہیں۔اکثر حضرات پہلے اپنی اہلیہ سے روکھا اور پھیکا پن برتتے ہیں، اور پھر کسی” اور “ سمت سرابوں اور خرابوں کا تعاقب کرنے لگ جاتے ہیں۔ انھیں اپنی جورُو خوب صورت دکھائی دیتی ہی نہیں۔ خاوند کی محبت کی اصل حق دار بیوی، محبت کے چند بول سننے کے لیے عمر بھر ترستی رہتی ہے۔ اللہ نے خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کے لیے راحت اور چاہت کا ذریعہ بنایا ہے۔ مگر کتنے ہی شوہر کسی اور گلی، کسی اور کوچے، کسی اور پگڈنڈی پر سکون اور راحت کی کھوج میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنا سب کچھ ہی تو گنوا اور لٹوا بیٹھتے ہیں۔ پروین شاکر کے تخیّل کی نزہت ملاحظہ کیجیے
رستے میں مل گیا تو شریکِ سفر نہ جان
جو چھاؤں مہرباں ہو اُسے اپنا گھر نہ جان
یورپ اور امریکا میں قریباً ہر شادی محبت کی شادی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہاں طلاق کی شرح 70 سے 75 فی صد تک ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عشق کے نشے میں دھت جوڑا ایک دوسرے کے سامنے اپنی شخصیت کو مثبت اور مثالی طریقے سے پیش کرتا ہے۔ مگر شادی کے بعد جب ان دونوں پر ایک دوسرے کی اصلیت ظاہر ہوتی ہے تو بعد میں نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ عشق و محبت ایک ایسا فعل ہے کہ جو شادی سے قبل نہیں بلکہ شادی کے بعد انجام دینا چاہیے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ شادی کے بعد رفتہ رفتہ عشق و محبت کا نام تک مٹ کر رہ جاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے، اور مَیں تم سب میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیویوں سے بہت زیادہ محبت کرتے۔اُن کے ساتھ کھیل کھیلتے، دوڑ لگاتے اور تفننِ طبع کے لیے ہنسی مذاق فرماتے۔ الف احمد برق نے بیوی کی محبت یوں بیان کی ہے ؎
مشفق و مہرباں شریکِ حیات
ہم دَم و رازداں شریکِ حیات
تم سے حاصل ہیں راحتیں ساری
وجہ تسکینِ جاں شریکِ حیات
دریائے دل میں محبتوں کے تلاطم ٹھاٹھیں مارنے لگیں تو پھر چھوٹی موٹی لغزشیں خود ہی دَم توڑ دیتی ہیں۔ کسی بھی سَر تاج اور اس کے دل کی ملکہ اور رانی کا صرف ایک دوسرے کو مسکرا کر ملنا ہی بہت سی غلط فہمیوں کو ختم کر دیتا ہے۔برطانیہ کی برسٹل یونی ورسٹی کی تحقیق کے مطابق دیگر افراد کے چہروں پر ہنسی دیکھ کر غصّے سے بھرے انسان کے اندر تشدّد اور جارحیت کا عنصر کم ہو جاتا ہے۔ نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کے کام کاج میں ازواجِ مطہرات کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ خاوند اگر گھریلو کام میں اپنی شریکِ حیات کا ہاتھ بٹانے لگ جائے تو محبتوں کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ٹیکساس یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں تسلیم کیا گیا ہے کہ جو خاوند گھریلو کام کاج میں اپنی بیویوں کی مدد کرتے ہیں، اُن کی بیوی کے دل میں اُن کے لیے بے پایاں محبتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آج میری اتنی سی بات ضرور مان لیجیے کہ کوئی تحفہ خریدیے اس پر کوئی محبت آفریں شعر لکھ کر اپنی شریکِ زندگی کو پیش کیجیے۔ یقین مانیں محبتیں نئی کروٹ لیں گی اور وفور مسرت سے دل چہک اٹھیں گے۔
یہ بھی یاد رہے کہ مال ومنال خوشیوں اور مسرتوں کے ضامن ہرگز نہیں ہوا کرتے۔ کتنی ہی مال دار عورتیں، اپنے رفیقِ زیست کی محبتوں کے لیے ترستی رہتی ہیں۔ البتہ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ عقل مند عورت کی ذہانت خاوند کے دل کی چابی ضرور ہوتی ہے۔
عمر بھر اپنے خاوند کے دل پر راج کرنے والی ایک بزرگ خاتون نے خاوند کا دل جیتنے کا گُر یہ بتایا کہ جس وقت میرا خاوند غصّے میں آتا تھا میں ان لمحات میں نہایت احترام کے ساتھ خاموشی اختیار کر لیتی تھی، گویا۔
”ایں است جوابش کہ جوابش نہ دہی“
یعنی جواب یہ ہے کہ کوئی جواب ہی نہ دیا جائے۔ خاوند کے تندوتیز اور تلخ رویّے کے باوجود مَیں خاموش رہتی اور میری آنکھوں میں حقارت اور نفرت نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ جب شوہر غصّے میں ہو تو ایسی صورتِ حال میں اُسے چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے جانا بھی عقل مندی نہیں۔ کبھی خاوند کی غصّے میں کہی گئی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے اور نہ انھیں درخورِ اعتنا سمجھنا چاہیے۔ عزت نفس کا مسئلہ دونوں رشتوں کے لیے مسائل کے انبار لگا دیتا ہے۔
لوگوں کی یہ عجیب فطرت ہے کہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے، اس کی قدر نہیں کرتے اور جب وہ چھن جائے تو پھر اس کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگتے ہیں۔ سوچیے! کہ اب اس کا کیا فائدہ؟ اگر اللہ نے آپ کو ایک خاوند دیا ہے یا اگر اللہ ربّ العزت نے آپ کو ایک بیوی سے نوازا ہے تو کبھی کسی اور طرف جھانکنے کی بجائے، اس سے محبت کیجیے، اس کی قدر کیجیے، اس کا مذاق نہ اڑائیے، اسے دیکھ کر نہ مسکرائیے بلکہ مسکرا کر دیکھیے، اگر آپ سمجھ سکیں تو یہی لطیف سی بات سیماب اکبر آبادی نے یوں کی ہے ؎
تضحیک والتفات میں رہنے دے امتیاز
یوں مسکرا نہ دیکھ کے، ہاں مسکرا کے دیکھ
وقت کی اور ان افراد کی قدر کریں جو آج آپ کے پاس موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ دل نشیں ساعتیں آپ سے چھین لی جائیں اور پھر آپ کو یوں لگے کہ جیسے آپ کی تو دنیا ہی اجڑ کر رہ گئی ہے۔ پھر ہمیشہ کے لیے پچھتاوے آپ کے گرد حصار بنا کر کھڑے ہو جائیں۔ پھر آپ تازیست چھن جانے والی شخصیت کی تحمید و توصیف ہی بیان کرتے رہیں، سوچیے! کہ پھر اس کا کیا فائدہ؟ پھر اس سے کیا حاصل؟ احمد فراز نے کہا ہے ؎
ہُوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تُو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی
(انگارے۔۔۔حیات عبداللہ)
یہ بھی پڑھیں: اصنافِ ادب کی اقسام میں سے ایک قابل ذکر قسم