سوال

ہماری شادی کو 4 سال ہو گئے ہیں، اس درمیان ہمارے لڑائی جھگڑے ہوتے تھے، جس میں غلطی میری ہی ہوا کرتی تھی، کیونکہ میں گھر وقت نہیں دیتا تھا بلکہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا، رات بھر ان کے ساتھ رہنا اور دن بھر سوتے رہنا میرا معمول تھا۔
یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ میرے سسر، سالا اور بڑے بھائی عاطف ضمیر نے مجھے مارا پیٹا اور زبردستی مجھ سے خالی اسٹامپ پیپر پر طلاق کے دستخط لیے، جو کہ میرا سالا اور سسر ساتھ لائے تھے اور اس پر تحریر 3 دن بعد کروائی گئی۔ اس پیپر پر میرے علاوہ کسی کے بھی دستخط نہیں ہیں، نہ میری بیوی کے، نہ گواہان کے۔
یہ دستخط میری رضا مندی سے نہ تھے بلکہ میں پاؤں پڑ کر معافیاں مانگ رہا تھا لیکن دھمکی اور مار کی وجہ سے مجھے دستخط کرنا پڑے بلکہ میں نے انگوٹھے کا نشان شناختی کارڈ نمبر پر لگایا تاکہ وہ خراب ہو جائے۔ یہ واقعہ چند دن پہلے عیدالفطر کے بعد کا ہے۔
میں اور میری بیوی دونوں ہی طلاق نہیں چاہتے. ہمارا 2 ماہ کا بچہ بھی ہے۔ میری اس معاملہ پر قرآن و سنت سے رہنمائی کریں۔
شکریہ، سائل: ثاقب ضمیر

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 جبر اور زبردستی کو شرعی اصطلاح میں ’اکراہ‘ کہا جاتا ہے۔ جس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

“هُوَ إِلْزَامُ الْغَيْرِ بِمَا لَا يُرِيدُهُ”. ( فتح الباری لابن حجر:12/311)

یعنی کسی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کرنا، جو وہ کرنا نہیں چاہتا۔
جمہور اہلِ علم کا موقف یہی ہے کہ ایسی صورت حال میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

{إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ} [النحل:106]

یعنی جس کے دل میں ایمان ہو، لیکن اسے کلمہ کفر کہنے پر مجبور کردیا جائے، تو وہ کافر نہیں ہوگا۔
محلِ استدلال یہ ہے کہ اکراہ کی صورت میں کلمہ کفر معتبر نہیں، تو طلاق کا بالاولی اعتبار نہیں ہوگا۔( فتح الباری لابن حجر:9/390)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“لا طلاق في إغلاق”. (سنن ابي داود:2193، وحسنه الألباني في الإرواء:2047)

’مجبوری میں کوئی طلاق نہیں‘۔
’إغلاق‘ کے دو معنی بیان کیے جاتے ہیں: ایک اکراہ یعنی مجبوری اور دوسرا شدتِ غضب، جبکہ پہلا معنی زیادہ مشہور ہے۔ ( فتح الباری لابن حجر:9/389)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“‌إنَّ ‌الله ‌تجاوز ‌عن ‌أُمتي ‌الخطأ ‌والنسيان ‌وما ‌استكرهوا ‌عليه”. [سنن ابن ماجة:2045، صحيح ابن حبان:7219، المعجم الکبیر للطبراني: 11274، تخريج المشكاة للألباني:6248]

’ اللہ تعالی نے میری امت سے غلطی، بھول چوک اور جن چیزوں پر انہیں مجبور کردیا جائے، سے در گزر کیا ہے‘۔
صورتِ مسؤلہ میں سائل کے بقول چونکہ اسے مارپٹائی کرکے، دھمکیاں لگا کر طلاق دلوائی گئی ہے، حالانکہ وہ دینا نہیں چاہتا تھا، لہذا یہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اور دونوں میاں بیوی کا آپس میں نکاح برقرار ہے۔
 البتہ سائل کو اپنی اس مذموم روش سے توبہ کرنی چاہیے، جس کے سبب اس کے اہل خانہ کو اسے مارپٹائی کرکے طلاق دلوانے کی کوشش کرنا پڑی۔ اسی طرح مارپٹائی کرنے والوں کے بھی علم میں ہونا چاہیے کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق کروانا انتہائی مکروہ فعل ہے، جس پر انہیں بھی توبہ کرنی چاہیے ، اور آئندہ بھی ضرورت محسوس ہو تو تربیت ، اصلاح اور تادیب و سزا کے دیگر ذرائع اختیار کیے جائیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ