انسان کی تخلیق کرنے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے اور خالق حقیقی سے بڑھ کر انسان کو کوئی جاننے والا نہیں ہے کیونکہ وہ خالق ہے اور سینے میں دھڑکنے والے دل کی ہر ہر کیفیت سے لمحہ بہ لمحہ واقف بھی ہے. اب یہ اختیار بھی خالق حقیقی ہی کے پاس ہے کہ انسانوں کی پیدائش کے بعد ان کو کس حال میں کب تک رکھنا ہے اور کیوں رکھنا ہے کیونکہ حکمتوں کا مالک اللہ ہے. جب یہ اختیار اللہ کے پاس ہے تو پھر انسانوں پر بس کوشش اور صحیح ٹریک پر چلنے کا کہا گیا ہے اس ٹریک کو اسلام نے صراط مستقیم سے تعبیر کر رکھا ہے. اور یہ بات ہمیشہ دل و دماغ میں رہنی چاہیے جب اس ٹریک پر چلنا والا استقامت سے چلتا ہے تو پھر اللہ کی طرف سے بہت سی آزمائش آتی ہیں ان آزمائش کا مقصد انسان کی استقامت کو دیکھنا ہے کہ مستقل ہے یا عارضی.
اور اسی دوران لوگوں کی طرف سے بھی انسان کو ڈی ٹریک کرنے کی ہزاروں کوششیں کی جاتی ہیں ان لوگوں کی حرکات وسکنات کا مطلب واضح ہی ہوتا ہے کہ اُس انسان کو ڈی ویلیو کیا جائے لیکن وہ دولت و شہرت کے نشے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ عزت و ذلت تو اللہ رب العزت کے اختیار میں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر اپ صحیح ٹریک پر ہو تو پھر ان وقتی وعارضی مصائب کے دور میں صبر اور اللہ سے توکل کی امید کو ختم نہ کیا جائے اگر اس پر استقامت رہی تو اللہ کا وعدہ ہے
#اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ_یُسۡرًا
(بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ )

ایسے ہی بندہ ناچیز پر بھی زندگی کے بہت سے مقامات پر مصائب آئے ہیں اور ہمیشہ اللہ نے بندہ ناچیز کو ان میں صبر واستقامت پر قائم رکھا ہے۔
یہ اللہ رب العزت کی رحمت ونصرت اور والدین، حلقہ احباب اور اقرباء کی دعاؤں کا نتیجہ ہے الحمد للہ..
میں ان سات دنوں کی مفصل روداد اور اس سے ماخوذ ہونے والے اسباق اور مالک الملک کی حکمتوں کا بھی ذکر کروں گا
ان شاء اللہ

سفرکاآغاز
میں لاہور کی ایک معروف کمپنی سے کچھ ماہ تک وابستہ رہا تھا اس کمپنی سے وابستگی کام کی صورت میں ہی تھی جیسے لاکھوں لوگ دیگر کمپنیوں سے وابستہ ہیں، اس سے منسلک ہونا میرے تجربات میں نیا تھا
لیکن میری طبیعت کچھ ایسی ہے کہ انسان کے پاس ملٹی پل تجربات ہونے چاہئیں جو زندگی کے بہت سے مقامات پر انسان کو فائدہ دیتے ہیں..
اب زندگی میں یہ تجربہ چل ہی رہا تھا کہ کئی وجوہات کی بنیاد پر کمپنی کو مالکان نے بند کر دیا اب اس سے ہزاروں ورکرز اور لوگ اچانک بے روزگاری کا شکار ہوئے ہوئے اور اسے کمپنی سے وابستگی رکھنے والے کسٹمرز مایوس ہوئے اور انویسٹرز الگ سے پریشان ہوئے۔
ورکرز کی تقریبا دو دو ماہ کی تنخواہیں پینڈنگ تھیں اب ورکرز نے جب یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بس جس کے ہاتھ کمپنی کی جو چیز آئی اسے قبضہ میں لیا اور راہ فرار ہوئے اور اسی طرح ان ورکرز کے استادوں نے بھی سیلری کے عوض بہت سی مشنری اور ٹولز کو رہن میں لے لیا کہ پینڈنگ سیلری ملے گی تو یہ چیزیں شاید وہ واپس کر دیں گے لیکن ان کے ذہن میں یہی تھا کہ یہاں سے سیلری تو ملنی نہیں لہذا انہوں نے یہ اشیاء آگے فروخت کر کے پیسے اپنے ماتحت ورکرز کو دے دئیے اب یہ ساری صورتحال تشویشناک تھی اور پریشان کن الگ..

اسی طرح وینڈرز نے جب یہ صورت حال دیکھی سب نے ملکر مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا عندیہ دیا اور مالکان میں سے ایک کو اس بات پر طلب کیا کہ معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرتے ہیں لیکن وہ وہاں سے گرفتار ہوئے اور ایف آئی آر میں نامزد کر دیا گیا.
یہ سب یکم ستمبر سے دو ستمبر کے مابین ہوا تھا..

اس دوران یہ بات میڈیا ہاؤسز اور پبلک تک پزیرائی اختیار کر چکی تھی اور مالکان کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ..

اب چونکہ ملک پاکستان کا مبارک قانون اس قابل اور فاسٹ تو ہے نہیں کہ متعلقہ بندے کو پکڑ سکے بلکہ یہ محکمہ اپنی بچی کچھی ساکھ کو بحال رکھنے کے لیے بس شک کی بنیاد پر اِدھر اُدھر کے لوگوں کو بلاوجہ پکڑ کر پیسے بٹورتا ہے اور عزت نفس کو مجروح الگ سے کرتا ہے..

اب ایسا ہی کچھ بندہ ناچیز کے ساتھ ہوا۔
میں اپنی سٹڈی میں مصروف تھا کہ گیارہ ستمبر کی رات تقریبا ایک بجے ایک نئے نمبر سے کال موصول ہوئی کہ اپ کامران بات کر رہا ہے میں مثبت میں جواب دیا جی بالکل میں ہی بات کر رہا ہوں۔
اس کالر نے یہ کہا کہ اپ کا ایک پارسل آیا ہے وہ اپ وصول کر لیں.. جب یہ بات سنی تو فورا میری نظر کلاک پر پڑی تو وقت 1 کے قریب ہو رہا تھا تو میں نے بڑے ادب سے یہ سوال کیا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ میرا کوئی پارسل کسی نے نہیں کروایا جو مجھے موصول ہونا تھا لہذا یہ میرا پارسل نہیں دوسرا یہ کونسا وقت ہے چیز جو پارسل کرنے کا؟

یہ بات کرنے کی دیر تھی کالر نے کال بند کی اور پھر منٹس بعد پھر کال آئی کہ باہر آجائیں جب یہ بات کالر نے کی تو میرا ذہن فورا کمپنی کے متعلق چلنے والے حالات پر گیا اور اسی سلسلے میں مجھے گرفتار کرنے کا پلان ہے..

میں کال بند کی تو وہ کمرے کے باہر تھے فوری میرا موبائل فون قبضہ میں لیا اور بدتمیزی سے ساتھ لے جانے کا کہا….
میں نے بڑے تحمل سے ان کے ساتھ جانے کا کہا اور چل دیا…

گرفتاری
میری اس گرفتاری میں ملوث دو پولیس اہلکار اور تین سول لباس میں تھے اور مجھے کچھ دیر ایک جگہ بٹھا کر کچھ سوالات کیے گئے جن کا بندہ ناچیز نے مکمل اور صحیح جواب دیا ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ
پھر ایک وائٹ کلر کی سوزوکی مہران آتی ہے تو مجھے اس میں بیٹھنے کا کہا گیا.. ایک اہلکار پیچھے میرے ساتھ ایک ڈرائیور ساتھ باقی سول لباس میں ملبوس افراد بائک پر تھے..

آدھا گھنٹہ لاہور کی سڑکوں پر گھمانے کے بعد ایک تھانہ کے گیٹ پر گاڑی رکتی اور اُترنے کا کہا جاتا ہے..
گاڑی سے اَتر کر منشی کے کمرہ میں پہنچے تو نوجوان منشی اپنی کرسی پر براجمان تھا.. اتفاق یہ تھا وہاں تھانے میں لائٹ گئی ہوئی تھی جوکہ رات بھر نہیں آئی….
کچھ دیر خاموشی کے بعد منشی نے سوال کیا کہ اپ کس کییس میں آئے ہیں میرا جواب تھا کہ اسی جواب کی تلاش میں بندہ ناچیز خود ہے شاید جواب مل جائے یہ جواب دیا تھا مجھے گرفتار کر کے لانے والا اہلکار بولا کہ یہ ڈی ایس پی کا مہمان ہے، جب میرے کانوں کی سماعت میں یہ جواب شامل ہوا تو فوراً یہ بات ذہن میں ائی کہ معاملہ ہائی لیول کا ہے اور مجھے یہاں نہیں کہیں اور لے جانا مقصود ہے یہ عارضی ٹھکانہ ہے..

اس سوال وجواب اور تھوڑی بہت گفتگو کے بعد میرے پانی طلب کرنے پر مجھے پانی پلایا گیا…
اب مجھ سے پوچھا گیا کہ اپ رات حوالات میں گزاریں گے یا یہاں ہی بیٹھیں گے میں نے کہا میں اپ کی کسٹڈی میں ہوں اپ جو بھی کریں گے یہ اپکا اختیار ہے بس ایک گزارش ہو گی جہاں بھی رکھیں بس ایک جائے نماز اور قران میسر کر دیجے گا….

انہوں نے مجھے پچھے کوئی چھوٹا سا کمرہ تھا وہاں بٹھا دیا اور ایک پٹھی پرانی جائے نماز دی جس کو دیکھ کر اہل تھانہ کے ایمانی لیول کو پرکھنا بعید از قیاس نہ تھا اور افسوس کی بات یہ بھی تھی کہ تھانے میں مسلمانوں کی روحانی کتاب قران مجید نہیں تھی…
خیر مجھے وضو کروا کر ادھر رات گزارنے کا کہا گیا میں نے رات بھر اپنی سابقہ روٹین کے مطابق تہجد کی نماز ادا کرتا رہا اور فجر کی اذان سے کچھ وقت پہلے تک وتر پڑھ کر فری ہوا تو پھر تلاوت شروع کر دی یہ سلسلہ جاری تھا کہ اذان فجر کی آواز کانوں کی سماعت کو ٹکڑاتی ہے تو بھاگ کر ایک گلاس پانی پی کر سوموار کے روزہ کی نیت کر لی.
پھر سنتیں اور نماز فجر ادا کی اس کے بعد نماز کے اور صبح کے اذکار کیے، یوں وقت گزر رہا تھا تو اشراق کا وقت ہو گیا پھر بندہ ناچیز نے نماز اشراق ادا کی اور آدھا گھنٹہ کی دعا کر کے اس سلسلے کا اختتام کیا…
یعنی اب سوموار کا دن شروع ہو چکا تھا.. جاری ہے.

کامران الٰہی ظہیر