سوال

ایک فیکٹری والے یہ سوال پوچھ رہے ہیں، کہ ایک مسجد ہے جس میں افطار کے وقت بہت سے لوگ جمع ہو جاتے ہیں، جن میں بہت سارے سٹوڈنٹس بھی ہوتے ہیں، کیا ہم زکوۃ کے پیسوں سے ان کی افطاری کا انتظام کر سکتے ہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

افطاری کروانا بڑا عظیم عمل ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَنْ فَطَّرَ صائمًا، كان له مِثْلُ أجْرِهِ، غَيْرَ أنَّهُ لاَ يُنْقَصُ مِنْ أجْرِ الصَّائِمِ شَيْءٌ”. [سنن الترمذي:807]

’’جس نے کسی روزہ دار کو افطاری کروائی ، تو اسے بھی اس کے برابر ثواب ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں سے ذرا بھی کم کیا جائے‘‘۔
ليكن افطاری کروانا زکوۃ کے مصارف میں سے نہیں ہے۔ بےشک افطاری کرنے والے غریب ہی ہوں پھر بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ زکوۃ غرباء اور مساکین کو دینا اور انہیں اس کا مالک بنانا ضروری ہے،محض افطاری کروانے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
آیتِ زکاۃ:

(اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِينِ …).[ توبہ:60]

میں ’لام‘ تملیک کے لیے ہے، یعنی جو رقم زکوۃ کی نکالیں اس رقم کا مستحقین کو مالک بنائیں، پھر ان کی مرضی ہے ،وہ افطاری کریں یا جہاں چاہیں اس کو خرچ کریں۔
اگر افطاری کروانے کا شوق اور طاقت رکھتے ہیں، تو اپنی جیب سے ان کو افطاری کروائیں، زکوۃ کے پیسوں کو اس انداز سے استعمال کرناجائز نہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ