ہمارے معاشرے میں ایک جھوٹ بہت عام ہے، کہ جب ہم کسی کے پاس مہمان بن کے جاتے ہیں، تو میزبان ہم سے چائے، پانی، کھانے کا پوچھتا ہے تو جھٹ سے کہتے ہیں، کہ طلب نہیں ہے، کھا کہ آئے ہیں وغیرہ وغیرہ، ضرورت و طلب کے باوجود دو، چار دفعہ جھوٹ بولتے ہیں اور اسکو خودداری و وضع داری کا نام دیتے ہیں ۔۔۔!
اس صورت حال کے بعد دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔

1. کہ وہ میزبان آپکے انکار کے باوجود آپ کو کھانا، چائے وغیرہ پیش کردے اور یہ اسکی خوش قسمتی ہوگی کہ اس نے آپکی نظروں میں اچھا تاثر قائم کیا ہے۔

2. کہ وہ آپکی بات پر یقین کرکے آپ کو کچھ نہ کھلائے، کہ بھائی صاحب تو پہلے سے ہی سیر ہیں۔
اور یہ ہے اسکی بد قسمتی کہ اب آپ دل ہی دل میں اسے کوسنا شروع کردیں گے کہ یار اس نے تو ایک دو بار ہی صلح ماری ہے پھر پوچھا ہی نہیں، اس نے تو سوکھی صلح ماری ہے کھلانے کا ارادہ نہیں تھا، اگر ارادہ ہوتا تو۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یاد رکھیں طلب ہونے کہ باوجود عدم طلب کا اظہار کرنا یہ جھوٹ کہلائے گا، دل اور زبان کا تضاد جھوٹ ہی شمار ہوگا۔ کہ دل کسی بات یا چیز کا متمنی اور خواہش مند ہو، لیکن ہم زبان سے اسکا انکار کر دیں تو یہ جھوٹ ہی شمار ہوگا۔
ہمیں سچ بولنے میں شرم آتی ہے، سچ بات کے اظہار کو عار سمجھتے ہیں، جھوٹ بولنے میں عزت تصور کرتے ہیں، اور اسے وضع داری، خودداری کا نام دیتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے مطالبہ کر لیا تو میزبان ہمیں بھوکا خیال کرے گا۔
نتیجہ پھر یہ نکلتا ہے کہ گناہ بھی کمایا اور بھوکا بھی رہا،
زبان نبوت سے اس کی خرابی جاننے کے لیے دو صریح حدیثیں ملاحظہ فرمائیں ۔
1. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ ، قَالَتْ : أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بِطَعَامٍ ، فَعَرَضَ عَلَيْنَا ، فَقُلْنَا لَا نَشْتَهِيهِ ، فَقَالَ : «لَا تَجْمَعْنَ جُوعًا ، وَكَذِبًا»
ترجمہ:
حضرت اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : نبی ﷺ کی خدمت میں کھانا حاضر کیا گیا ۔ آپ نے ہمیں کھانے کی پیش کش کی ۔ ہم نے کہا : ہمیں خواہش نہیں ( بھوک نہیں ہے ۔ ) آپ نے فرمایا :’’ بھوک اور جھوٹ کو اکٹھا نہ کیا کرو ۔‘‘
(سنن ابن ماجہ 3298)

2۔ عَنْ أَسْمَاء بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَتْ: کُنْتُ صَاحِبَۃَ عَائِشَۃَ الَّتِی ہَیَّأَتْہَا وَأَدْخَلَتْہَا عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعِیْ نِسْوَۃٌ، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا وَجَدْنَا عِنْدَہُ قِرًی إِلَّا قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ، قَالَتْ: فَشَرِبَ مِنْہُ ثُمَّ نَاوَلَہُ عَائِشَۃَ، فَاسْتَحْیَتِ الْجَارِیَۃُ، فَقُلْنَا: لَا تَرُدِّی یَدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خُذِی مِنْہُ، فَأَخَذَتْہُ عَلَی حَیَائٍ، فَشَرِبَتْ مِنْہُ، ثُمَّ قَالَ: ((نَاوِلِی صَوَاحِبَکِ۔)) فَقُلْنَا: لَا نَشْتَہِہِ، فَقَالَ:((لَا تَجْمَعْنَ جُوعًا وَکَذِبًا۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ قَالَتْ إِحْدَانَا لِشَیْئٍ تَشْتَہِیہِ: لَا أَشْتَہِیہِ،یُعَدُّ ذَلِکَ کَذِبًا، قَالَ: ((إِنَّ الْکَذِبَ یُکْتَبُ کَذِبًا حَتَّی تُکْتَبَ الْکُذَیْبَۃُ کُذَیْبَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۱۹)

ترجمہ:

سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:میں نے سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں روانہ کرتے وقت ان کو تیار کیا، چند دوسری خواتین بھی میرے ساتھ تھیں، اللہ کی قسم! ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں دودھ کے ایک پیالے کے سوا مزید کوئی مہمانی نہ پائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے دودھ نوش فرمایا اور پھر وہ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو تھما دیا، انھوں نے دلہن ہونے کی وجہ سے دودھ نوش کرنے میں جھجک محسوس کی، لیکن ہم نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ یوں نہ واپس کرو اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پیالہ پکڑ لو، انہوں نے جھجکتے ہوئے پیالہ لے کر اس سے نوش کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اپنی ان سہیلیوں کو دے دو، تو ہم نے عرض کیا، ہمیں اس کی حاجت نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ اور بھوک کو یکجا نہ کرو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو کسی چیز کی حاجت تو ہو مگر وہ ویسے ہی کہہ دے کہ مجھے حاجت نہیں تو کیا یہ بھی جھوٹ لکھا جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جھوٹ کو جھوٹ ہی لکھا جاتا ہے اور چھوٹا جھوٹ چھوٹا ہی لکھا جاتا ہے۔

ان دونوں حدیثوں سے یہ بات عیاں ہو جاتی کہ مہمان کا ضرورت و طلب ہونے کے باوجود عدم ضرورت و طلب کا اظہار کرنا جھوٹ ہے،اور اگر طلب و ضرورت ہو تو بلا جھجھک اظہار کردینا چائیے، کیونکہ مہمان نوازی، مہمان کا حق ہے تو پھر اس میں شرم کی بات کیا ہے ۔۔۔۔۔۔؟

اور اب رہی میزبان کی بات، یعنی سارا قصور مہمان کا ہی نہیں ہوتا، کوتاہی میزبان کی طرف سے بھی ہوتی ہے، میزبان کو چاہیے کہ بار بار مہمان سے تفصیل پوچھ کر، اسی سے ہاں یا نہ کروانے کی بجائے جو میسر ہو وہ مہمان کے سامنے پیش کردے اگر حاجت ہوگی تو کھا لے گا، وگرنہ اسکی مرضی۔
جیسا کہ سیدنا ابرہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے انسانی شکل میں آئے تھے، آپ فوراً انکے لیے بھنا ہوا بچھڑا لے آئے، پوچھنے پوچھانے میں وقت ضائع نہیں کیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ۔ (سورۃ ھود (69)
ترجمہ:
اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے ،اور سلام کہا، انہوں نے بھی جواب میں سلام کہا، اور بغیر کسی تاخیر کے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے ۔

“حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) بڑے مہمان نواز تھے وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں اور کھانے پینے سے معزور ہیں، بلکہ انہوں نے انھیں مہمان سمجھا اور فورا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لا کر ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو موجود ہو حاضر خدمت کردیا جائے۔”(احسن البیان)

“اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مہمان نوازی میں دیر نہیں کرنی چاہیے، نہ ان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔ سورۃ ذاریات میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام چپکے سے گھر گئے اور کھانا لے آئے۔ وقت کی مناسبت سے جو حاضر ہو پیش کر دیا جائے، مہمان کی خواہش ہے تو کھا لے، ورنہ اس کی مرضی۔”(تفسیر القرآن)

” في هذه الآية من أدب الضيف أن يعجل قراه ، فيقدم الموجود الميسر في الحال۔(قرطبی)”
مفسر قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ اس آیت میں مہمان نوازی کا ادب بیان ہوا ہے کہ میزبان کے پاس جو بھی میسر اور موجود ہو وہ جلدی سے مہمان کے سامنے پیش کردے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹ سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

حافظ طلحہ اعجاز علوی