سوال

ایک عورت جو کہ پہلے مطلقہ تھی، اس نے اپنا نکاح اپنے ولی کی اجازت سے، جو کہ اس کا اپنا بیٹا تھا کیا۔ لیکن جب نکاح پڑھایا گیا تو اس میں گواہ موجود نہیں تھے۔صرف مولوی صاحب اور یہ دونوں میاں بیوی تھے۔ اور نکاح کو پوشیدہ رکھنا بھی کسی مجبوری کی وجہ سے ضروری  تھا۔ پوچھنا یہ ہے کہ یہ نکاح ہوا ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • شرعاً نکاح  منعقد ہونے کےلیے دو  گواہو ں  کے سامنے زبان سے ایجاب وقبول کرنا ضروری ہوتاہے، بغیر گواہوں کے لڑکے اور لڑکی کا ایجاب وقبول نکاح کے لیے کافی نہیں، اس سے شرعاً نکاح منعقدنہیں ہوتا۔ لہذا  اس جوڑے کے لیے آپس میں میل ملاقات یا میاں بیوی والے تعلقات رکھنا ہرگز جائز نہیں ہیں۔

ہاں اگر   دونوں کے ایجاب اور قبول پر  کم از کم دو مسلمان گواہ موجود ہوتے اور ولی بھی موجود ہوتا تو یہ نکاح  منعقد تو ہوجاتا ، لیکن یہ پسندیدہ نہیں ہے۔  کیونکہ نکاح کا اولیاء، گواہوں کی موجودگی میں اعلانیہ ہونا ضروری ہے، تاکہ جب دو اجنبی مرد اور عورت کا آپس میں تعلق قائم ہو، تو لوگوں کے ذہن میں کسی قسم کے شبہات اور وسوسے پیدا نہ ہوں۔ اور نہ ہی بعد میں میاں بیوی اس نکاح کو توڑنے اور ایک دوسرے کو دھوکہ دینے   کی طرف توجہ کریں۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ “.  [سنن الترمذی:1089]

’نکاح کا اعلان کرو،۔

اس روایت کی سند میں کلام ہے، لیکن شواہد کی بنا پر قابلِ حجت ہے۔ (آداب الزفاف:ص 97، ارواء الغلیل: 2053  كلاهما للألباني)

  • صورت مسؤلہ میں جو نکاح ہے، کئی اعتبار سے محل نظر ہے:

1:خاتون کا ولی اس کا اپنا بیٹا ہے۔ اور خاتون نے اپنے ولی کے سامنے اس نکاح کا مبہم تذکرہ کیا ہے۔ جبکہ اس کو پوری تفصیل ذکر کرنی چاہیے تھی۔اور پھر وہ مجلس نکاح میں بھی موجود ہوتا۔

2: اس نکاح میں گواہ موجود نہیں ہیں۔حالانکہ نکاح منعقد ہونے کے لیے دو عادل گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ حدیث میں ہے:

“لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ”.[صحيح ابن حبان:4075، إرواء الغليل:1860]

’ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘۔

بلکہ امام بیہقی لکھتے ہیں:

“الْفَرقُ بَيْنَ النِّكَاحِ وَالسِّفَاحِ: الشُّهُودُ”.(معرفة السنن والآثار (10/ 54)

’نکاح اور زنا کا فرق گواہوں سے ہی ہوتا ہے‘۔

3: اس نکاح کا اعلان نہیں ہوا حالانکہ جب نکاح کی مجلس منعقد ہو تو اس کا باقاعدہ طور پر اعلان ہونا چاہیے۔   جیسا کہ پہلے گزرا۔

  • اب اس کا حل یہ ہے،کہ اگر ملاپ نہیں ہوا ہے تو از سر نو نکاح کا اہتمام کیا جائے۔ اور اس نکاح میں گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور ولی کا ہونا بھی ضروری ہے۔اور مسلمانوں کی مجلس میں باقاعدہ طور پر ایجاب و قبول کیا جائے۔اگر ملاپ ہو چکا ہے تو کم از کم ایک ماہ انتظار کے بعد نکاح کیا جائے۔تاکہ یقین ہو جائے کہ رحم خالی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ