بچے کی سب سے زیادہ دوستی اپنی ماں سے ہونی چاہیئے، ماں کو بچہ جب جب دیکھے تو اسے ایسا لگے یہ دنیا میں سب سے بیش بہا تحفہ ہے، باپ کو دیکھ کر بچے کو ایسا محسوس ہو جیسے صحرا میں گہرا سایہ دار درخت ہو۔ اگر والدین میں ایسے اوصاف ہوں گے تب ہی بچے انھیں آئیڈیل سمجھیں گے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ والدین کے علاہ سب آئیڈیل لگتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟
جوں جوں بچے بڑے ہوتے انھیں والدین کی توجہ اور محبت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بچے سے اپنی محبت کا اظہار بوسے کی صورت میں کیا کریں، جب بچہ چھوٹا ہوتا یعنی لاشعور کی منازل میں تب بھی اسے محبت اور شفقت محسوس ہوتی ہے۔
بچے سارا دن اپنی ماں کی عادات دیکھتے لاشعور سے لے کر شعور کی منزل تک وہ اپنی ماں کی ہر عادت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ شوہر کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے چھوٹے چھوٹے جھوٹ بولنا، مثلاً بچے کو میڈیسن دی، بچے کو وقت پہ کھانا دیا وغیرہ وغیرہ۔
وقتی ڈانٹ ڈپٹ سے بچنے کے لیے “نہ” کرنے کے باوجود جواب ہاں میں دیا۔ جھوٹ کی خاصیت ہے وہ ایک بار بولنے والی طرف بار بار جاتا ہے اور آخر میں خود ظاہر ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلی بات جھوٹ سے اجتناب چاہے چھوٹے سے چھوٹا ہو۔ جھوٹ کو گناہ سمجھ کر ترک کیجیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ آسانیاں پیدا کر دیں گے ان شاءاللہ عزوجل۔ جہالت کی وجہ سے والدین کی خصلت بنی ہوتی ہے، جہاں دو چار لوگ بیٹھے ہوں وہاں اپنا رعب طاری کرنے کے لیے بچوں کو سب کے سامنے ڈانٹ دیتے ہیں۔ ایک بچے کا والد اسے سر بازار مار پیٹ رہا تھا وجہ کیا تھی کہ بچہ چند منٹ لیٹ ہوگیا دکان سے سودا لیتے وقت۔ انسانی فطرت ہے انسان اپنی بے عزتی نہیں بھولتا والدین کا ایسا رویہ بچے کی ہٹ دھرمی اور نفرت کا باعث بنتا ہے۔
اس معاشرے کا کیا حال ہوگا جہاں بہن بھائیوں کی آپس میں نہ بنتی ہو، کچھ بچے اپنے ہی گھر سے اس حد تک متنفر ہو چکے ہوتے ہیں کہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے کتراتے ہیں۔ شادی کے بعد اپنے اپنے کاموں میں مصروفیت سمجھ آتی ہے ،لیکن اس سے پہلے کیسی لاپروائی؟ اسکی وجہ کیا ہے؟؟ بچے والدین سے کیوں بیزار رہتے ہیں؟
بچے سرمایہ ہوتے ہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں ،اس انسان کے بارے میں کیا خیال جسکا سرمایہ ہی نہ ہو تو اس کا کتنا بڑا خسارہ ہوا!
اس سب کے پیچھے والدین کا ہاتھ ہوتا ہے، کہیں نہ کہیں وہ مس منیجمنٹ کر جاتے ہیں جس کا خسارہ لحد تک بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر گھر کا بڑا بچہ محبت کرنے والا اور محبت بانٹنے والا ہو تو باقی بچے اسے فالو کرتے ہیں۔ والدین کے علاوہ بچے کی پرورش میں کافی ہاتھ بڑے بہن بھائی کا ہوتا ہے اگر بڑا بچہ sensitive اور copratve ہوگا تو کافی حد تک اس سے چھوٹے بچے اسے follow کریں گے۔
بیٹی کی ماں ہونے کے ناطے
بیٹیاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ایسا تحفہ ہے، جس پہ جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ بیٹی کی سب سے اچھی دوست اسکی ماں ہونی چاہیے تب ہی وہ پر اعتماد سوسائٹی کی بنیاد یں قائم کرے گی۔ اگر ماں اسکی سب سے بہترین دوست نہ ہو تو وہ ٹیکنالوجی کے دور میں نجانے کس کس کی دوست بنے گی اور اپنی زندگی کے قیمتی سالوں کا ضیاع کرے گی۔ بیٹیوں کو پر اعتماد بنائیں انھیں احساس دلاتے رہا کریں کہ آپ ہمارے لیے بہت قیمتی اثاثہ ہیں۔
بیٹیوں سے محبت کرنا، انھیں عزت دینا اور انھیں جگر کا ٹکڑا کہنا یہ بھی میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے!۔
اپنے بچوں کے سامنے جیسا کردار آپکا ہوگا بچہ اسکا عکس ہوگا۔ ماں کو صابر، شاکر اور ہر حال میں اپنے شوہر کے ساتھ باوفا رہنا چاہیے۔ آجکل 80 فیصد لڑکیاں اپنی ازدواجی زندگی میں بہت دکھی ہیں، انھیں لگتا وہ اتنی دکھی ہیں، کہ دنیا میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اپنے گھر میں بے سکونی پیدا کرتی ہیں، ساتھ اپنے والدین کو بھی بے سکون کرتی ہیں۔
میرا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ خوش رہنے کے لیے قربان کرنا پڑتی ہیں اپنی انائیں، بے جا خواہشات، کنڑول کرنا پڑتا اپنا غصہ، بند رکھنی ہوتی زبان۔ اگر لڑکی اپنی ماں میں صبر دیکھتی تو یہ خوبی وہ اپنی ماں سے adopt کرے گی۔ کبھی بھی آپکا صبر ضائع نہیں جائے گا۔
بچپن سے اماں ہاجرہ کا صبر کرنا کہانی کی طرح سنائیں اور بتائیں کہ صبر کرنے سے کیسے انمول تحائف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ بہتر ین بدلہ دیتے ہیں۔ کیا حسین بدلہ ہو کہ آپ کی صابر اور شاکر طعبیت کی بدولت آپکا شوہر آپکا گرویدہ ہو جائے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ سے راضی ہو جائے۔
معذرت کے ساتھ نہ ہم میں وہ اوصاف ہوتے نہ ہماری اولادوں میں اور ہم گلہ کرتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے کہ میرے صبر کی حد ختم ہو گئی، جبکہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اسکی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا (البقرہ)
اماں حاجرہ بھی عورت تھیں انھون نے صبر کیا، کیسا خوبصورت اجر ملا کہ انکا اپنے بچے کے لیے بھاگنا شعائر اللہ میں شامل ہوگیا۔ صبر کی آ غوش تلے پلنے والی ایسی شاکر اور نیک اولاد کہ اگر باپ کہے آپکو ذبح کرنا ہے تو بچہ بغیر کسی سوال و جواب کے سر جھکا دے۔ اپنا محاسبہ کیجیے آپ کہاں کہاں صابر تھے اور کہاں کہاں آپ اجر سے محروم رہے؟
مسائل کی ایک بنیادی وجہ
زیادہ تر مسائل کام نہ کرنے یعنی ہڈ حرامی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسکا بہترین حل بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی چھوٹے چھوٹے کام کرنے کے لیے دیتے رہیں اور تعریفی کلمات کہتے رہیں جن سے بچے کی حوصلہ افزائی ہو سکے عمر کے حساب سے کام دیے جائیں مثلاً:
اگر بچہ چھوٹا ہے تو اسے چھوٹی اور قریب پڑی چیزیں لانا کا کہیں۔
بچہ تھوڑا بڑا ہو تو اسے مزید کام کہیں کام بس اتنا ہو کہ وہ اکتاہٹ کا شکار نہ ہو۔
بچپن سے بچے کے ذمہ لگائیں کہ اس نے اپنا بستر خود سیٹ کرنا، اپنے جوتے ترتیب سے رکھنے، پانی پینے کے بعد گلاس دھو کر رکھنا ہے، اپنا بیگ خود ترتیب اور سلیقے سے رکھنا وغیرہ وغیرہ۔
بیٹی جب نا بالغ ہو اور لگے کہ بالغ ہونے کے قریب ہے تو اسے ایسے انداز سے ایام حیض کے بارے میں بتائیں کہ وہ سمجھے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے چھٹی کے دن دیے ہیں۔ بچی کو غسل اور پاکی کے بارے میں مکمل بریف کرنا، ماں کے اولین فرائض میں ہے۔ اس عمر میں عموماً لڑکیاں حیا کی وجہ سے اپنی ماں سے کچھ شئیر نھیں کر پاتیں۔ آپ اپنی بیٹی کی ایسی دوست بنیں وہ اپکو کچھ بھی بتاتے ہوئے ڈرے نہیں، بلکہ راحت محسوس کرے جیسے وہ بیسٹ فرینڈ سے بات یا شئیرنگ کر کے محسوس کرتی ہے۔
اسی عمر میں سالن بنانا اور اسطرح کے کام میں اسکا interest develop ہو کیونکہ آپ پی ایچ ڈی بھی کر لیں سسرال جا کر سب کرنا پڑتا ہے۔ اگر کم عمری سے شوق ہو تو کام مشکل نہیں بلکہ روٹین لگتے ہیں۔ اکثر مائیں کہتی ہیں کہ میری بیٹی ابھی پڑھ رہی ہے ابھی اس کی عمر کیا جو کام پہ لگا دوں، ایسی باتیں آپ کے اور آپکی بیٹی کے لیے ساری عمر مسائل پیدا کرتی ہیں۔
بیٹی اور بیٹے دونوں کے ذمے ہو کہ اپنی وارڈ روب وہ خود سیٹ کریں، ذمہ داری دینے سے پہلے جب بھی اسطرح کا کام آپ کریں انھیں پاس بیٹھائیں تاکہ انھیں مشکل پیش نہ آئے۔
ماں کو چاہیے وہ خود کا تنقیدی جائزہ لیتی رہا کریں، مثلاً اکثر عورتیں کام کرتے وقت منہ کے اتنے برے اینگل بناتی ہیں کہ انکی سگی اولاد انھیں دیکھ کہ stress محسوس کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی ماں سے کہہ نہیں سکتے کہ آپ منہ کیسا بنا رہی ہیں۔ ہوسکتا اپکو برا لگے لیکن یہ میرا ذاتی تجربہ ہے آپ خود کو نوٹ کیجئے آپ اپنے بچے کے لیے stress کا سبب تو نہیں بن رہے؟!
آجکل اولاد کا نافرمان ہونا عام مئسلہ بن گیا ہے، ہر دوسری ماں کا رونا کہ اولاد نافرمان ہوگی ہے، جبکہ پہلے زمانے کی اولاد ایسی نہیں تھی۔ کافی ساری observation کے بعد میں تو اس نتیجے پہ پہنچی ہوں کہ پہلے زمانے کی مائیں بھلے ہی ان پڑھ تھیں، ان کے پاس زیادہ علم نہیں تھا لیکن ان کے پاس جتنا علم تھا اس سے زیادہ وہ با عمل تھیں، کام کے دوران وہ کوئی نہ کوئی دعا پڑھتی رہتی تھیں خاص کر دورد پاک کا ورد کرتی تھیں۔ کام کے دوران درود پاک پڑھنا معمول بنائیں۔ آزمایا گیا طریقہ ہے کہ اس کے ورد سے آپ کی اولاد آپکی اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرماں بردار ہوگی۔ ان شاءاللہ عزوجل