کسی بھی قوم کے بچے اس کا مستقبل ہیں، یہ ہمارے لیے بہت بڑا اثاثہ ہیں، بچوں کی درست کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم کوشش کے باوجود بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت میں کامیاب نہیں ہوپاتے؟ آخر اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

اس کے اسباب میں ہماری اپنی ذاتی کمزوریاں اور ہماری بچپن کی تربیت ہے. ہمارا اپنا بچپن کیسا گزرا؟ یہ ہمارے بچوں کی تربیت کے لیے انتہائی اہم ہے۔
سخت گیر ماحول کی پرورش، مزاج کو سخت، ترش اور ڈھیٹ بنا دیتی ہے، یا اسکے برعکس بچوں کو بلکل کھلی چھٹی بھی ان کی اخلاقیات میں بگاڑ پیدا کرتی اور انہیں بدتمیزی بنادیتی ہے۔ سختی اور نرمی دونوں میں اعتدال اور میانہ روی ہی بہترین رستہ ہے۔

والدین میں کمزوریاں

اگر میاں بیوی کا آپس میں تعلق اچھا نہیں، سسرال اور ارد گرد کے معاملات درست نہیں تو اس سارے ماحول کا بچوں کے قلوب و اذہان پر اثر پڑتا ہے۔ لہذا اپنے لیے نہ سہی، اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے والدین کو خود کو ایک اچھی زندگی گزارنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔

ضرورت سے زیادہ خوش فہمی

یہ سوچ رکھنا کہ میرا خیال ہے میرا بچہ ایسا نہیں کرسکتا، ویسا نہیں کرے گا وغیرہ، اس طرز عمل سے والدین کا بچوں پہ کنٹرول  ختم ہوجاتا ہے، اور بچے کے برائی اور غلط حرکتوں پر مزید حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

دوسروں کے بارے میں سوء ظن اور بدگمانی
ہم بعض دفعہ اپنے بچے بچیوں کی غلطیوں پر ان کی اصلاح اور تربیت کی بجائے، ان کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانا شروع کردیتے ہیں، کہ تو فلاں عورت کی کارستانی ہے، فلاں مرد نے، فلاں لڑکے یا لڑکی نے میرے بیٹے/ بیٹی کو بگاڑ دیا ہے۔

بچوں کے ساتھ حد سے زیادہ بے تکلفی

والدین اور بچوں کا تعلق انتہائی اہم ہوتا ہے، اس میں اعتدال میں رہتے ہوئے، ہنسی مزاح اور بے تکلفی بھی ضروری ہے، تاکہ بچے ہر بات والدین کے ساتھ شیئر کریں۔ لیکن اگر اس تعلق میں وقار اور عزت و احترام باقی نہ رہے، تو بچے کی نظر میں والدین کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے، اور وہ کسی بھی موقعے پر والدین کو والد اور والدہ سمجھ کر نہیں، بالکل عام انسان سمجھ کر ٹریٹ کرتے ہیں، اور ان کی باتوں اور نصیحتوں پر توجہ دینے کی بجائے من مانے فیصلے اور حرکتیں سرانجام دینا شروع ہوجاتے ہیں، جس سے ان کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔

والدین کے قول و فعل میں تضاد

ہم خود کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں. دوسروں کے سامنے کسی بات پہ ہم بچوں کو تو خوب پیار سے بلائیں اور گھر آتے ہی اسی بات پہ ڈانٹنا شروع کردیں. بچوں کو تلقین کریں کہ نماز اور قرآن پڑھنا ضروری ہے، لیکن خود ہم نمازوں اور قرآن سے کوسوں دور ہوں، تو ظاہر ہے بچوں پر ہماری چند لمحوں کی بات کی بجائے ہمارا ہر وقت کا فعل اور عمل زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جب بچہ آپ کی بات نہیں مانتا، تو اس کا بنیادی سبب اس کی شخصیت کا منفی اور ضدی ہونا ہوتا ہے، جو کہ ارد گرد کے ماحول کے سبب ہوتا ہے، کوشش کرکے بچے کو مثبت بنائیں، اس کی شخصیت سے منفی تاثرات کو ختم کردیں، وہ آپ کی بات ماننا شروع ہوجائے گا۔ ذیل میں کچھ مفید تجاویز ذکر کی جاتی ہیں، جن سے ہم اپنے بچے کی شخصیت کو مثبت بنا سکتے ہیں۔

ٹی وی، موبائل وغیرہ کا استعمال

ٹی وی، موبائل وغیرہ ڈیوائسز اور ان میں آنے والے حیا باختہ پروگرامز، اسٹوریز بھی بچوں کے اخلاقی بگاڑ کا ایک بنیادی سبب ہیں، لہذا بچوں کا اسکرین ٹائم کنٹرول کریں، اور جب وہ ان چیزوں کو استعمال کریں بھی تو وہ والدین کی نگرانی میں انتہائی مثبت اور مفید استعمال ہونا چاہیے۔ موبائل اور دوسرے gadgets کی وجہ سے ہمارے بچے اردگرد کے ماحول سے بلکل بے خبر ہوجاتے ہیں، لہذا انہیں ان چیزوں سے ہٹ کر بھی مواقع فراہم کریں کہ وہ صحت مند سرگرمیوں کے ذریعے کچھ مفید اور بہتر سیکھ سکیں۔

بچوں کو خود کچھ کرنے اور محنت کا عادی بنائیں

ہر والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے دنیا کی ہر سہولت فراہم کریں، لیکن یاد رکھیں اگر آپ ہر چیز پلیٹ میں سجا کر بیٹھے بٹھاۓ ہر چیز میسر کردیں گے، تو بچے  بےکار، اور سست ہوجائیں گے۔ لہذا انکو چھوٹے چھوٹے کام خود کرنے دیں، جیسے اپنے برتن، بستر وغیرہ سمیٹنا، اپنے جوتے وغیرہ خود صاف کرکے، ترتیب سے رکھنا۔

بچوں کو غلطیاں کرکے سیکھنے دیں

کمالیت (Perfection) کے تصور سے باہر نکلیں. بعض والدین بچوں کی ذرا سی غلطی سے ہائپر ہوجاتے ہیں، اور اسی ڈر سے کہ یہ کوئی کام خراب کردیں گے، انہیں کچھ کرنے ہی نہیں دیتے، حالانکہ درست رویہ یہ ہے کہ ان کی معمولی غلطیوں کو نظرانداز کرنا چاہیے، تاکہ وہ غلطیوں کو صحیح کرنا اور مشکلات سے نبرد آزما ہونا سیکھیں۔ انہیں اشیاء کی قدر و قیمت ضرور بتائیں تاکہ وہ چیزوں کو ضائع نہ کریں، لیکن اگر انہیں یہ بھی سمجھنے دیں کہ اس دنیا میں فائدے اور نقصان ہوتے رہتے ہیں، اور ان سب چیزوں کو خندہ پیشانی اور مطمئن دل کے ساتھ فیس کرنا ہوتا ہے۔ بچہ ہر وقت توڑ پھوڑ کرتا رہے یہ رویہ جتنا غلط ہے، اتنا ہی غلط یہ بھی ہے کہ آپ کا بچہ ہر وقت غلطی اور نقصان اور اس پر ڈانٹ ڈپٹ کے ڈر سے سہما رہے۔

روزہ مرہ سرگرمیوں میں دین اور اسلام کا حوالہ دیں

بچے کو بتائیں کہ دائیں ہاتھ سے کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اسی طرح ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھا کام دائیں طرف سے شروع کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ دانتوں کو صاف رکھنے کے لیے مسواک/برش کا استعمال بھی سنت ہے۔ والدین کی خدمت اور ادب و احترام سے اللہ تعالی خوش ہوتا ہے۔ اولاد کس طرح والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتی ہے۔ انہیں ہر اچھے کام پر جنت کا انعام اور برے کام پر جہنم کی سزا کا بھی مناسب طریقے سے بتلائیں، اور یہ کہ اچھے بچے اپنے والدین کے ساتھ جنت میں اکٹھے ہوں گے.. وغیرہ۔

ترتیب وانتخاب: ام حمدان
العلماء شعبہ خواتین