ڈاکٹر خالد الردادي اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر کچھ لکھنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا ہے.
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
ہائے زندگی کے غم :
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
میرے محسن، مشفق و مربی، کٹر وہابی، پکے سلفی ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قيامت کا ہے گویا کوئی دن اور
مجھے حضرتِ شیخ سے ” معہد اللغۃ العربیہ ” میں توحید کا مضمون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، پڑھاتے کیا تھے؟ گویا مضمون کو آسان اور عام فہم بنا کر دل و دماغ میں اتار دیتے تھے۔ ہر بات سے سلفیت ٹپکتی اور علی الاعلان اپنے اہلِ حدیث ہونے کا اقرار کرتے تھے۔ کتاب کی عبارت عام طور پر مجھے پڑھنے کا کہتے تھے اور اکثر ” يا أہل الحديث ” کہہ کر مخاطب فرماتے۔دورانِ طالب علمی روضہ رسول ” علی صاحبہا افضل الصلاۃ والتسليم ” پر پہرہ بھی دیا کرتے تھے۔ یعنی ہمارے نعت خواں حضرات کی اصطلاح میں ” روضے کی جالی” والے تھے. دوران سبق اپنے دعوتی تجربات کی روشنی میں حاصل ہونے والے اسباق اور دروس و عبر نہایت جوش و خروش سے ذکر کرتے. بہت سے واقعات میں سے دو واقعات جو ذہن میں آ رہے ہیں ذکر کرتا ہوں.
1: ایک بار رات کے وقت روضہ رسول پر پہرے داری کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے کہ ایک شخص خوشبو سے بھری بوتل لایا اور قبر رسول صلی الله علیه و سلم پر چھڑکنے کی اجازت چاہی، شیخ ردادی رحمہ اللہ نے انکار کیا تو اس نے دور جا کر بوتل کا ڈھکن کھولا اور روضہ پر پھینکی۔ شیخ نے فرمایا کہ بوتل میرے اوپر آ کر گری اور ساتھ ہی کہنے لگے یہ بیس سال پہلے کا واقعہ ہے، وہ ثوب آج بھی میرے پاس ہے اور اب بھی اس میں سے وہ خوشبو نہیں گئی۔
2: اسی طرح ایک بار پہرہ ہی دے رہے تھے اور کوئی نہیں تھا، اچانک ایک شخص آیا اور کہنے لگا مجھے روضے کے اندر جا کر نماز ادا کرنے کی اجازت دیں اور اس نے ہیرے جواہرات دکھا کر کہا اس کے بدلے میں یہ سب لے لو. مگر استاد محترم نے دو ٹوک الفاظ میں انکار کر دیا۔ شیخ کہنے لگے یہ زیورات اتنے بیش قیمت تھے کہ اگر میں لے لیتا تو میری کئی نسلیں عیش و عشرت کی زندگی گزار سکتی تھیں۔
میری آخری ملاقات” کلیۃ الحديث الشريف ” کی لائبریری میں ہوئی۔ میں حسبِ معمول دوران وقفہ لائبریری میں گھوم پھر کر کتابوں کے نام یاد کر رہا تھا کہ کانوں میں استاد محترم کی رس بھری آواز پڑی۔ میں وارفتگی سے آواز کی جانب بڑھا اور نہایت محبت اور عقیدت و احترام سے سلامِ مسنون عرض کیا۔ آپ بھی نہایت گرمجوشی سے ملے اور روایت سابقہ کے مطابق مجھے ” یا اھل الحدیث ” کہہ کر مخاطب کیا اور ساتھ ہی کہنے لگے: “تمہیں یہی ہونا چاہیے تھا اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔”
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
حافظ عبد العزيز آزاد