عالم کی آزمائش در حقیقت ظالم کی آزمائش

تاریخ اسلام میں علم و فضل کے بڑے بڑے ناموں کے حالاتِ زندگی کو ملاحظہ کیا جائے تو اس میں بقیہ حالاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ ایک عنوان یہ بھی ہوتا ہے’ محنتہ’ یا ’ابتلاؤہ’ یعنی اس عالم کی آزمائش اور مصائب کا ذکر، جن سے انہیں زندگی میں واسطہ رہا۔
مثلا امام بخاری رحمہ اللہ کو آزمائش آئی تو آپ کو سرزمین بخاری سے نکلنا پڑا اور اسی غریب الوطنی کی حالت میں انہوں نے وفات پائی، اس سے پہلے احمد بن حنبل کو مسئلہ خلقِ قرآن کے حوالے سے مصائب اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں، ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو لے لیں تو قید و بند کی صعوبتوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ اسی طرح ان سے پہلے العز بن عبد السلام، نووی وغیرہ اکابرین کی سیر و سوانح میں یہ چیزیں نمایاں موجود ہیں جو کہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں، آج جس طرح یہ سب علماء سرخرو ہو چکے اور ان کو تکلیفیں پہچانے والے بے نقاب ہو چکے۔
امید ہے فضیلۃ الشیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ کی ’ابتلاء و آزمائش’ بھی ان کے لیے سرخروئی اور رفعِ درجات کا سبب بنے گی اور انہیں اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا کرنے والے جلد یا بہ دیر اپنے انجام کو پہنچیں گے! کیونکہ یہ اللہ کی سنت ہے:
“من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب”
یعنی یہ کسی عالمِ دین کو تنگ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے ساتھ اعلان جنگ ہوتا ہے، جو اللہ کے ساتھ جنگ کا اعلان کرے، وہ وقت کا ظالم و جابر حکمران بھی کیوں نہ ہو، اللہ تعالی اسے ضرور ذلیل و رسوا کرتا ہے۔
لا تبدیل لکلمات اللہ
اس نظامِ قدرت میں کوئی تبدیلی نہیں۔ ہم نے شیخ کی آہ و بکا کو سن لیا، شیخ کی دنیا سے رخصتی کے مناظر ملاحظہ کر لیے گئے۔ اب باری دوسری طرف کی ہے، دنیا ان کا انجام ضرور بالضرور دیکھے گی اور وہ شیخ کا نام لے لے کر روئیں اور پیٹیں گے، جیسا کہ پہلے لوگ کہتے ہوئے مرے کہ مجھے سعد بن ابی وقاص کی بد دعا لگ گئی ہے، مجھے سعید بن جبیر نے تباہ و برباد کر دیا ہے!
اس کو کسی جماعتی تناظر یا کسی ادارے کے جھگڑے کے تناظر میں نہ دیکھیں، یہ معاملہ اب بہت بڑا بن چکا ہے، کیونکہ عالم کی آزمائش در حقیقت ظالم کی آزمائش ہوتی ہے، اللہ سے عافیت کا سوال کریں کہ کہیں کوئی عالم آپ کے لیے آزمائش کا ذریعہ نہ بن جائے۔

یہ بھی پڑھیں:
فضیلۃ الشیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ کے حوالے سے کچھ باتیں