سوال
ہمارے والد محترم فوت ہوئے ان کا ایک بھائی اور ایک بہن ایک بیوی اور 3 بیٹیاں ہیں۔ ہمارا کوئی بھائی نہیں اور نہ ہی کوئی کمانے والا ہے۔ہم سب کنواری اور پڑھ رہی ہیں۔ والد صاحب کا کل اثاثہ ہی اب ذریعہ آمدن ہے،اور اسی سے گھر چل رہا ہے۔ ابو کو فوت ہوئے ابھی22 دن ہوئے ہیں تو ان کا بھائی اور بہن حصہ مانگ رہے ہیں جبکہ ان کا ابو کے ساتھ تعلق اچھا نہیں تھا، بلکہ جانی دشمن تھے۔ ابو کی زندگی میں انہوں نے بہت تکلیفیں دیں ہیں اس حوالے سے آپ کا فتوی درکار ہے برائے کرم رہنمائی فرما دیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
ان کے آپس کے تعلقات کا خراب ہونا یہ وراثت کے موانع میں سےنہیں ہے۔ اور آپ کے باپ کے ساتھ جو ان کا تعلق اچھا نہیں تھا، اس کے بارے میں ان سے آخرت میں حساب ہوگا۔
ان تمام ورثاء کا وراثت میں سے حصہ بنتا ہے، جیسا کہ اللہ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:
“لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا”.[النسا:07]
’ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال ماں باپ اور خویش واقارب چھوڑ مریں) خواه وه مال کم ہو یا زیاده (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے‘۔
ورثاء میں ایک بھائی، ایک بہن، ایک بیوہ اور تین بیٹیاں ہیں، اس میں بیٹیوں کوثلثان (دو تہائی)،بیوہ کو ثمن (آٹھواں حصہ)، اور جو باقی بچے وہ بھائی اور بہن کو “لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ”. کی نسبت سے تقسیم ہو جائے گا۔
آسانی کےلیے اس کے کل 72 حصے کر لیے جائیں ان میں بیٹیوں کے لیے 48 حصےہیں (16) حصے ہر ایک بیٹی کو مل جائیں گے۔ اور بیوہ کے ’9‘ حصے بنتے ہیں ۔ باقی 15 میں سے 10 حصے بھائی کو اور 5 حصے بہن کو مل جائیں گے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ