مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
معراج فیض آبادی کو اپنے بچوں کی ضروریات کی تکمیل بوڑھا نہیں ہونے دیتی تھی، اس سے مماثل احساسات تقریبآ ہر باپ کے ہوتے ہیں، باپ کی اپنی اولاد کے ساتھ مَحبّت بھی عجیب جذبات میں گُندھی ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی ضروریات، خواہشات اور ان کی ذات کی تکمیل کے وہ اپنا سب کچھ تج ڈالتا ہے، پہلے وہ بیٹے کی پیدایش کے لیے اپنے رب سے رو رو کر دعائیں مانگتا ہے اور پھر ان کی پرورش کے لیے اپنی زیست کے تمام لمحات لٹا دیتا ہے، اولاد جوان ہو جاتی ہے۔
پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ بہت دُور ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو جاتا ہے، وہ اوراقِ گذشتہ میں کہیں ایسا کھو جاتا ہے کہ اشکوں کے سوتے خشک نہیں ہو پاتے۔ جب اس کی سماعتوں سے اپنے ہی بیٹے کی دی گئی گالیاں ٹکراتی ہیں تو دو تین عشرے قبل اسی بیٹے کی پیدایش کے وقت کے وہ سہانے مناظر یاد آنے لگتے ہیں، جو آج تازیانے بن کر اس کی بصارتوں میں آنسو گھول رہے ہوتے ہیں، جب یہی بیٹا پیدا ہُوا تھا، تب اس کے مَن میں خوشیوں کی کتنی آبشاریں اور جھرنے پھوٹ پڑے تھے، اس کے تخیل میں ماضی کے دریچے وا ہوتے ہی چلے جاتے ہیں، اس نے کتنے ناز و نعم سے اسے پال پوس کر جوان کیا ہے، اس نے کب کب اپنے بیٹے کی مانگ میں کہکشانیں بھری تھیں، اس نے اپنے بچوں کی تمناؤں کے راستے میں حائل رخنوں کو کس طرح مات دی تھی، اس نے کس طرح اپنے بچوں کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے اپنی حسرتوں کا خون کیا تھا، وہ ساری باتیں اور یادیں اس کے جذبات واحساسات میں تلاطم اور بھونچال پیدا کر دیتی ہیں۔تیور بدلتے حالات بھی انسان کو ایسے مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں کہ اپنے جن بچوں کی صحت، تن درستی اور لمبی عمر پکے لیے وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعا کر رہا ہوتا ہے، وہی اولاد اس کے مرنے کی دعائیں مانگ رہی ہوتی ہے۔
دنیا میں شاید کوئی بھی ایسا مذہب اور معاشرہ نہیں، جہاں والدین کی عزت اور توقیر مقدم نہ رکھی جاتی ہو، لیکن آج جس معاشرے سے ہم تعلق رکھتے ہیں، وہاں ہم بد ترین اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہیں کہ والدین کی تقدیس کو پامال کیا جاتا ہے۔جایداد کے تنازع پر والدین سے بدسلوکی کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں، پاک پتن میں جایداد نام نہ کرنے پر بیٹے نے دوستوں کے ہمراہ بوڑھے باپ پر تشدد کیا۔گذشتہ ہفتے دیال پور کے علاقے سبزی منڈی میں محمد احمد نامی بدبخت نوجوان نے اپنی والدہ پر بہیمانہ تشدد کیا، بیٹے کے لگائے گئے زخموں سے سسکتی ایک ماں کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔پولیس کے مطابق ملزم اس کا سگا بیٹا ہے اور اُس نے غلط کاموں سے روکنے پر ماں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
جن کے متعلق قرآن میں اللہ کا حکم ہے کہ انھیں ” اُف “ تک مت کہو، ان کو آج گالیاں دی جائیں، ان پر تشدد کیا جائے، اولاد ان پر ہاتھ اٹھائے، ذرا سوچیے کہ ایسے والدین کے دلوں پر کیسی قیامت ٹوٹ پڑتی ہو گی؟ بخآری اور مسلم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا ” اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ” دریافت کیا گیا کہ بھلا کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” ہاں! آدمی کسی کے باپ کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا اور وہ کسی کی ماں کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا“۔
نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو کسی دوسرے کے باپ کو گالی دینے کو بھی اپنے باپ کو گالی دینے کی مثل قرار دیا ہے، براہِ راست اپنے والدین کو گالی دینے کا گناہ کتنا ہو گا، اس کا اندازہ خود لگا لیجیے۔
باپ تو خواب میں آ جائیں تو دعا ہی دیتے ہیں، عباس تابش نے اپنے والد کے متعلق کیا خوب کہا ہے:-
مدت کے بعد خواب میں آیا تھا میرا باپ
اور اس نے مجھ سے اتنا کہا ” خوش رہا کرو “
اپنی اولاد کی خاطر اپنی متاعِ حیات کو کھپا دینے والے کتنے ہی والدین ایسے ہیں کہ جو اپنے ہی بچوں میں مہر و وفا کو کھوجتے پھرتے ہیں مگر انھیں فقط بے وفائی اور کج ادائی ہی نہیں ملتی، انھیں گالیاں بھی ملتی ہیں، انھیں گھر سے دھکے بھی ملتے ہیں، وہی بیٹے جن کی خاطر اپنے اللہ سے رو رو کر دعا مانگی ہوتی ہے، جوان ہو کر اپنے والدین پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، جن بچوں کے گھر بنانے کی خاطر کوئی شخص اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے، وہی اولاد اسے بے گھر کر دینا چاہتی ہے، وہی گھر جس میں والدین اپنے بچوں کو خوش رکھنے کی خاطر اپنی زندگی کے مصائب وآلام کو بھی چُھپا کر رکھتے تھے کہ کہیں بچے رنجیدہ نہ ہو جائیں، اسی گھر میں ان کا زندہ رہنا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔ ساجد جاوید ساجد نے بہت عمدہ شعر کہا ہے:-
گھر کی اس بار مکمل مَیں تلاشی لوں گا
غم چُھپا کر مرے ماں باپ کہاں رکھتے تھے؟
عین اسی گھر میں جب باپ کو کوسنے دیے جاتے ہیں، اس کے مرنے کا انتظار کیا جاتا ہے تو ایسے مناظر دیکھ کر دل دکھوں سے ضرور لد جاتا ہے، مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک بیٹا اپنے والد کو دلّا اور کتا کَہہ رہا تھا، ذرا سوچیے تو سہی کہ یہ سب سُن کر اس باپ کے ضبط کے بندھن کس طرح ٹوٹ گئے ہوں گے؟ اس نے اپنی ٹوٹتی بکھرتی اور شکستہ شخصیت کو کس طرح سمیٹا اور سنبھالا ہو گا؟ اور ماضی کے متعلق سوچ سوچ کر وہ کس قدر جیا اور مرا ہو گا؟ باپ کی عزت اور تکریم کے متعلق احادیث کے وسیع ذخیرے میں سے یہ جامع الترمذی کی حدیث نمبر 1900 پڑھ لیں۔۔۔شاید کہ آپ سمجھیں۔۔۔شاید کہ آپ حقیقت جان لیں! حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے“۔
معین شاداب نے باپ کے متعلق اپنے دل نشیں جذبات کا اظہار یوں کیا ہے:-
وہ وقت اور تھے کہ بزرگوں کی قدر تھی
اب ایک بوڑھا باپ بھرے گھر پہ بار ہے

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )