آج دنیا کی بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی و ترقی نے ہمیں انگلش کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کردیا ہے،اس بھاگ دوڑ میں ہم اپنی مذہبی زبان جو کہ عربی ہے،اسے پیچھے چھوڑ چکے ہیں،اسکی اہمیت ہمارے زیر نظر نہ رہی، جس زبان میں شریعت کے اسرار و رموز پنہاں ہیں،جس زبان میں اللہ نے قرآن نازل کیا ہے،اور جو ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زبان تھی،جس زبان میں آپ موتی بکھیرتے تھے،جس زبان میں آپ اپنے جانثاروں سے باتیں کیا کرتے تھے،وہ عربی زبان ہی تھی،اس کی اہمیت پر امام شافعی کا قول ملاحظہ فرمائیں۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس زبان کو اللہ تعالی نے اختیار کیا ہے، اور پھر اس زبان میں اپنی کتاب کو نازل کیا ہے اور جو زبان خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، وہ عربی زبان ہے، اسی لیے ہم(امام شافعی) کہتے ہیں کہ ہر وہ آدمی جو عربی زبان سیکھنے کی طاقت رکھتا ہے، وہ سیکھے، کیونکہ یہ بہترین و افضل زبان ہے۔
(اقتضاء الصراط المستقیم(464/1)
امام شافعی رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ عربی زبان اس قدر ضرور سیکھے کہ اس کے فرائض کی ادائیگی ہو جائے۔
(“ارشاد الفحول” للشوکانی فیما نقله عنہ الحاشدی فی فن الحوار (ص99)
لیکن آج عامۃ الناس کا حال یہ ہے، کہ فرض نماز میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے الفاظ کی درست ادائیگی تک نہیں آتی،انکا ترجمہ اور تفہیم تو دور کی بات،اور اسی طرح انگلش فر فر سن لو لیکن تلاوت قرآن کی بات آئے زبان اٹکنا شروع ہوجاتی ہے،کیونکہ اسکو سیکھا ہی نہیں ہے۔اور کوئی سیکھنے کے لیے تیار بھی نہیں الا ماشاءاللہ،
آج ہم دنیوی فوائد کے حصول کے لیے تو دن ، رات محنت کرنے کے لئے تیار ہیں اور ہر زبان سیکھنے کے لئے تیار ہیں حتی کہ دنیوی فوائد کے حصول کے لیے لوگوں نے اب چائنیز زبان جو کہ مشکل ترین زبان تھی وہ بھی سیکھنا شروع کردی ہے لیکن نہیں سیکھتے، تو عربی زبان نہیں سیکھتے،باوجود اسکے کہ یہ قرآن کی زبان ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ عربی زبان میں مہارت حاصل کریں یا عربی زبان کے مترجم بن جائیں لیکن کم از کم ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے اور تلاوت قرآن کریم کے لیے عربی زبان کی درست ادائیگی سیکھنی چاہیے جو کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔

لیکن کتاب و سنت کا فہم حاصل کرنے کے لیے اور ان سے مسائل اخذ کرنے لیے تو عربی زبان پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے بصورت دیگر آپ ٹھوکریں کھائیں گے اس بات کو سمجھنے کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ عربی زبان سیکھنا فرض و واجب ہے کیونکہ بلاشبہ کتاب وسنت کا فہم حاصل کرنا فرض ہے اور کتاب وسنت کا فہم تب تک نہیں آ سکتا جب تک آپ عربی زبان نہیں سیکھ لیتے،(ایک فقہی قاعدہ ہے) کہ جس چیز کے بغیر واجب مکمل نہ ہو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے.(اقتضاء الصراط المستقیم 468/1)
(یعنی کتاب وسنت کا فہم حاصل کرنا واجب ہے لیکن ایک عجمی تب تک فہم نہیں حاصل کرسکتا جب تک عربی زبان نہ سیکھ لے،اس لیے عربی زبان سیکھنا بھی واجب قرار پایا۔)

ابن فارس رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ قدیم زمانے میں لوگ اپنے مکتوب میں لفظی غلطی سے بہت زیادہ اجتناب کیا کرتے تھے لیکن آج معاملہ حد سے تجاوز کر گیا ہے، کہ ایک حدیث بیان کرنے والا حدیث بیان کرتا ہے(عربی زبان میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے) اس میں لفظی غلطیاں کرتا ہے اور اسی طرح ایک فقیہ کتاب تالیف کرتا ہے تو اس میں لفظی غلطیاں کرتا ہے۔
(فن الحوار ص 101٫101)
ابن تیمیہ وابن فارس رحمھما اللہ کے  اقوال سے آپ ان لوگوں کی حقیقت بھی سمجھ سکتے ہیں جو خود کو عالم و فاضل سمجھتے ہیں معاشرے میں بہت بڑے ناقد کی حیثیت سے جی رہے ہیں اور کتاب وسنت کا وہ فہم پیش کررہے جو چودہ سو سالوں میں کسی نے پیش نہیں کیا، لیکن عربی زبان میں مہارت تو درکنار، عربی گریمر کی “الف ، ب” سے بھی ناواقف ہیں
اور حالت یہ ہے کہ قرآن کا ترجمہ بھی صحیح طریقہ سے نہیں کرسکتے ۔اللہ تعالی ہدایت عطا فرمائے ۔آمین

 حافظ طلحہ اعجاز علوی