دفاع صحابہ رضی اللہ عنھم کے چند رہ نما اصول

آج جس قدر مجاہدین دفاع صحابہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بد قسمتی سے اسی قدر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی توہین و گستاخی بڑھ رہی ہے۔
روافض کی دنیا الگ تھی ان کے صدیوں کے تبرے کا کوئی خاص اثر اہل سنت والجماعت پر کبھی پڑا تھا اور نہ آئندہ کوئی امکان تھا۔ مگر خود اہل سنت میں را فضیت اور ناصبیت کے جو رجحانات پروان چڑھ چکے ہیں وہ حقیقی رافضیت سے زیادہ خطرناک ہیں کیوں کہ اب عظمت و دفاع کی یہ ساری کشمکش اہل سنت کے دائرے میں آ گئی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر امیر عراق کی پھبتی کستا اور نعوذ باللہ انھیں بزدل قرار دیتا ہے اور کوئی کہتا ہے: “سارا فساد ماموں کا پھیلایا ہوا ہے”۔ اور ایسا کہنے والے روافض نہیں، بلکہ خود کو  باصرار اہل سنت کہلانے والے ہیں۔

ایسے میں دفاع صحابہ کے چند رہ نما اصول پیش خدمت ہیں:-
1 چند مخصوص یا من پسند صحابہ کا دفاع ہرگز دفاع صحابہ کا مقدس عنوان نہیں بن سکتا۔
2 بلا تفریق تمام اصحاب محمد ﷺ کا دفاع کرنا چاہیے اور سب کے لیے حسن ظن رکھنا چاہیے اور فرق مراتب نہیں بھولنا چاہیے۔
3 دفاع صحابہ کرنے والا یہ یاد رکھے کہ صحابہ معصوم نہیں تھے، تاہم اپنے غیر معمولی فضائل و محاسن کے باوصف ان پر طنز و تشنیع و تنقید ہمارے لیے کسی طرح روا نہیں، کیونکہ اللہ رب العالمین علیم و خبیر ذات نے سب معاملات کے باوجود انہیں ’رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ’ کا سرٹیفکیٹ جاری فرمایا ہے۔
4 مشاجرات صحابہ میں اولا سکوت اختیار کرے ثانیا غیر ضروری بحث سے گریز۔ یعنی محتاط کلام ہو۔
5 توہین پر مبنی قولی و تحریری بیانات کے ابلاغ سے گریز کرے۔
6 ایک صحابی کا دفاع کرتے ہوئے دوسرے صحابی پر الزامی جواب کے نام پر الزامات و اتہامات سے گریز کرے۔ تاہم واقعات سے استدلال الگ چیز ہے۔
7 تاریخ کو عقیدہ نہ بنائے، تاریخ کو تاریخ ہی رہنے دیا جائے۔ عقیدے کی بنیاد نصوص شرعیہ ہی پر رکھے۔
8 کسی مقدس شخصیت یا ان کے مابین قضیے میں توازن اور اعتدال ضروری ہے۔ باہم متضاد روایات کو اسناد صحیح کی بنیاد پر پرکھ کر درست رائے تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ احترام بہر صورت قائم رکھے۔ محض خواہش کی اتباع نہ کی جائے۔
9 قرن اول کے ان مشاجرات پر بحث کرتے وقت زبان و بیان و اخلاق میں گراوٹ پیدا ہو رہی ہو تو مناسب ہے کہ ان مباحث کو یکدم ترک کر دیا جائے اخلاق و احسان کی کتب پڑھ کر اپنا تزکیہ کرلے۔

مولانا محمد تنزیل الصدیقی الحسینی حفظہ اللہ

دفاع صحابہ و اہل بیت کی آڑ میں فتنہ

جب سے مشاجرات صحابہ کا دروازہ دفاع صحابہ یا دفاع اہل بیت کے نام پر بے دھڑک کھول دیا گیا ہے، اہل حدیث کہلانے والوں میں بھی طرح طرح کے مفتُون اور اُن کے حزبی گماشتے پیدا ہوچُکے ہیں جو بذات خُود دشمنان اسلام کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ کاش یہ بات ان مُفتیان کو سمجھ آسکے۔ ان میں سے کوئی علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا مُنکر ہے تو کوئی حسنین رضی اللہ عنہما کی منقبت کا، کوئی عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہما کا گُستاخ ہے تو کوئی طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کو مشق سُخن بنائے ہوئے ہے! رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین۔

“اگر اس نے یہ کہا تو اُس نے وہ کہا، اگر اس پر یہ اعتراض ہے تو اُس پر بھی یہ وارد کرو، یہ جھوٹا تھا تو وہ بھی باطل تھا” جیسی بک بک آجکل ان فیس بُکی قاضیوں کے ہاں بڑی نکتہ وری مانی جاتی ہے۔ حالانکہ اگر اس تفصیل میں خیر ہوتی تو قران و سُنت ان عظیم ہستیوں کے بارے میں اجمال اور ادب کا اسلوب اختیار نہ کرتے۔ لیکن ان حوادث کے بارے میں علم وحی نے کامل رہنمائی دینے کے باوجود اجمال، عدم خوض اور عدم سرگرمی کا رویہ اپنانے کا حُکم دیا، یہی سلف صالحین کا منھج تھا۔ اگر چند ایک ائمہ نے بتقاضائے مصلحت قلم اٹھایا بھی تو عوام اور دیگر اہل علم کو اس سے دور رہنے کی تلقین کی اور اس کے فتنے سے خبردار کیا۔

ایک عام ادنی مُسلمان کے دل میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ کے صحابہ کے لیے فطری تعظیم اور محبت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے، اور اُن پر کسی اوباش کے حملوں کا رد قران و سُنت کے عمومی لیکن مُحکم دلائل کے ذریعے کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اصل یہی ہے کہ عظیم ہستیوں کے بارے میں کسی بھی پہلو سے زیادہ تبصرہ نگاری اور ثالثی کا رویہ اُن کی ہیبت اور فطری محبت کو دلوں میں کم کردیتا ہے اور یہی منافقین شروع سے چاہتے تھے۔

لیکن اب عام و خاص میں اس رویے کی حوصلہ افزائی کے بعد صورتحال یہ ہے کہ زبانیں دراز ہوچُکی ہیں، دفاع کے نام پر بھی تبصرہ نگاری یوں جاری ہے جسے کسی گلی محلے کے زید،عمرو ،بکر ہوں، والعیاذ باللہ۔ کیا یہ فتنے کی سرکوبی کے نام پر اُس سے بڑا فتنہ نہیں بن چُکا؟

الحمد للہ تعالی، ہم تو ایک سادہ مسلمان کی طرح یہی محسوس کرتے ہیں کہ جس نے حالت ایمان میں رسول اللہ کو ایک بار محبت کی نگاہ سے دیکھ لیا اور آپ اُس سے راضی ہوئے اُس کے بارے میں تبصرہ کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی کہ اُسکی شان اس سے کہیں بلند ہے۔ فقط وُہی کہ دیتے ہیں جو قران کہتا ہے (رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ) یا جو رسول کریم کہتے ہیں حسنین کے بارے میں (سیدا شباب اھل الجنة) يا معاويه کے بارے میں (اللهم اجْعَلْه هادياً مَهْدياً، واهْدِ به)۔ رضی اللہ تعالی عنھم۔ ہر روشن دل کے لیے تو اس طرح کی نصوص کافی ہیں، رہا مریض دل، تو اُس کا علاج صرف رب ذوالجلال کے پاس ہے۔

مولانا ضیاء اللہ برنی حفظہ اللہ