عصری جامعات سے وابستہ فضلائے مدارس: دینی واخلاقی بناؤ اوربگاڑ کا محاکمہ

عرب وہند کے تعلقات کی تاریخ بہت قدیم ہے۔یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب عرب تاجر بغرض تجارت ہندوستان میں قدم رنجاں ہوئے۔بڑے پیمانے پر اشیائے ضروریات زندگی ہندوستان سے ملک عرب اورملک عرب سے ہندوستان لائی اور لے جائی جاتی تھیں۔ اسلام کا سورج طلوع ہوا تو اس کی ضوبار کرنوں سے دیار ہند کی بھی تاریکیاں کافور ہوئیں۔قاضی اطہر مبارک پوری نے اپنی کتاب ”خلافت راشدہ اور اسلام“ میں اورمولانا اسحق بھٹی نے اپنی کتاب ”برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش“ میں ذکر کیا ہے کہ ہندوستان میں کئی صحابہ وتابعین کا ورود مسعود محمد بن قاسم کی جماعت حقہ کی ہندوستان آمد سے قبل ہی ہوچکا تھا۔چنانچہ جب صحابہ وتابعین اور مسلم فاتحین نے اپنے اخلاق وکرادار کا پرچم یہاں لہرایا تو اہل ہند نے ان کا استقبال کیا۔ محمد بن قاسم کے فتح سندھ کے بعد تو اسلام کی گویا باد بہاری چلنے لگی۔ اہل ہند وسندھ نے صحابہ وتابعین اور مسلم فاتحین کی دعوت قبول کی۔ اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے۔ زبان عربی کو اپنی آنکھوں سے لگایا۔ اسے سیکھا اور سکھایا۔ کلام پاک سیکھا اور سکھایا۔ دین سیکھا اورسکھایا۔مکاتب کھولے، مدارس کھولے اور دین کی تبلیغ واشاعت کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔
مغلوں کا زمانہ آیا جسے اسلامی ہند سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھوں نے بھی دینی تعلیم کے فروغ میں حسب مقدور اپنا کردار ادا کیا۔ (اگر چہ یہ بحث کا موضوع ہے کہ اسلامی ہند میں کس قدر اور کس اہتمام ومعیار کا کام ہوا۔ اور اس پر میں بعد میں تفصیل سے لکھوں گا۔ ان شاء اللہ) بیان کیا جاتا ہے کہ مغلوں کے سیاسی زوال کے وقت مدارس کی تاسیس نے زور پکڑا۔ مورخین ذکر کرتے ہیں کہ شاہ جہاں کے زمانے میں دہلی، لاہور، سیالکوٹ اور احمد آباد وغیرہ اسلامی علوم وفنون کے مراکز تھے۔ یہاں تک کہ ہرات اور بدخشاں سے بھی طالبان علوم دینیہ کشاں کشاں یہاں آتے تھے۔ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں جو علمی ارتقا کی بہار آئی وہ بے مثال تھی۔ کہاجاتا ہے کہ اس نے ملا نظام الدین کو ایک محل وقف کیا تھا جس میں مدرسہ نظامیہ کی بنیاد پڑی اور جس کے نصاب تعلیم کو درس نظامیہ کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے زمانے میں شہروں اور قصبوں میں بھی مدارس کا جال بچھادیا تھا۔مغلوں کے سیاسی زوال کے بعد علم وادب کایہ سلسلہ ہندوستان میں ہمیشہ جاری وساری رہا۔ہندوستان میں اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کی غرض سے بڑے بڑے اسلامی مدارس قائم کیے گئے۔ بڑے بڑے قراء، حفاظ، علماء، مفسرین، محدثین، مورخین، شعراء اور ادباء پیدا ہوئے۔انھوں نے ہر علم اور ہر فن میں بڑی بڑی کتابیں لکھیں۔اور غیر اسلامی ہندوستان میں اسلامی شناخت کو برقرار رکھا۔
اسلامی مدارس کے قیام کا مقصد اولین اور ہدف اول ہرزمانے میں اسلام کی تبلیغ تھا۔ ایسے لوگوں کودینی تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنا تھا جو دینی علوم کے حصول کے بعد،قر آن وسنت کے جوہر سے مالا مال ہونے کے بعد، فقہ وشریعت کے اسرار روموز سے آشنا ہونے کے بعدلوگوں تک دینی علوم کی ترسیل کریں۔انہیں کتاب وسنت کے جوہر سے مالا مال کریں۔ فقہ وشریعت کے اسرار ورموز سے آشنا کریں۔ دینی علوم کی تبلیغ واشاعت کا فریضہ انجام دیں۔ اس مقصد میں مدارس اسلامیہ کوکافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔اور ہندوستان میں ہر مسلک اور ہر مکتب فکر میں ایسے بڑے بڑے اور جید علماء پیدا ہوئے جنہیں نہ صرف اپنے فرائض منصبی کاشعور و ادراک تھا بلکہ انھوں نے اپنے فرائض کی کما حقہ ادائیگی کی بھی کامیاب کوشش کی۔یہ سلسلہ کم وبیش ہر دور اور ہر زمانے میں اور ہمیشہ جاری وساری رہا۔ طلبہ مدارس سے علماء بن کر فارغ ہوتے رہے اور حسب صلاحیت واستعداد میدان علم وادب میں اپنی خدمات کا پھریرا لہراتے رہے۔
انھی فضلائے مدارس میں مفسر قرآن بھی پیدا ہوئے اور محدثین عظام بھی۔ مورخین اسلام بھی پیدا ہوئے اور شعرائے کرام بھی۔ ان علماء، مفسرین، محدثین اور مورخین کے جو احسانات ملت اسلامیہ ہندیہ پر ہیں انھیں ہرگز ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے ہر دور میں اور ہرزمانے میں، ہرمساعد ونامساعد حالات میں ملت اسلامیہ کی شمع علم وادب، نور علم وحکمت کو ضو فشاں رکھا، اسے کسی طور بجھنے نہیں دیا۔ملت اسلامیہ کو دینی شعور وفکر کے لباس سے آراستہ کیا۔ جس کی وجہ سے آج بھی ہندوستان میں اسلام کے نام لیوا اور شیدائی بہر گام مل جائیں گے۔
مدت مدید کے بعد بالخصوص بیسویں صدی کے نصف ثانی میں مدارس اسلامیہ کے فارغین کے لیے ایک اور راستہ کھلا اور وہ راستہ تھا عصری جامعات کا۔ امرواقعہ یہ ہے کہ عصری جامعات نے مدارس اسلامیہ کے فارغین کو اپنے یہاں نہ صرف داخلے کا مستحق قرار دیا بلکہ دینی اور عصری تعلیم سے آراستہ ہونے والے بہت سارے فارغین کوان جامعات میں ملازمتیں بھی دستیاب ہوئیں۔انہیں عصری جامعات میں استاد مقرر کیاگیا۔ پہلے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی جیسے چند عصری جامعات نے اپنے دروازوں کو وا کیا۔ طلبائے مدارس کو عربی، اسلامیات اور زبانوں کے کچھ دیگرمخصوص مضامین میں داخلے کی اجازت دی۔ طلبہ نے ان عصری جامعات سے بی اے ایم اے اور پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں حاصل کیں اور علم وادب کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عصری جامعات میں داخل ہونے والے فارغین کو بیشتر مدارس کے ذمے داران پہلے اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اسی لیے چند گنے چنے مدارس کے فارغین ہی مزیداعلی یا عصری تعلیم کے لیے عصری جامعات میں داخلہ لیتے تھے مگر بعد میں اس میدان میں بڑی وسعت آئی۔ علی گڈھ کے ساتھ ساتھ اکثر جامعات نے مدارس کی ڈگریوں کا اعتراف کیااور فارغین مدارس کو اپنے یہاں داخلہ دیا۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ شمال سے جنوب تک کم وبیش تمام عصری جامعات میں عربی زبان وادبیات اور اسلامیات کے شعبے قائم ہیں۔شمال میں جواہر لال نہر و یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، لکھنؤ یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، الہ آباد یونیورسٹی جیسے مرکزی جامعات کے علاوہ تقریبا ہر صوبے کی بیشترعصری جامعات میں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور اسلامک اسٹڈیز کے شعبے قائم ہیں۔ اترپردیش کے شہر لکھنؤ میں عربی اور فارسی کے نام پر ایک یونیورسٹی بھی قائم کی جاچکی ہے۔ فضلائے مدارس بڑی تعداد میں ان عصری جامعات کا رخ کرتے ہیں۔ زبان وادبیات اور اسلامیات کے علاوہ سوشل سائنس، تاریخ، جغرافیہ، طب،معاشیات اور قانون کے علاوہ کچھ پروفیشنل کورسوں میں بھی داخلہ لیتے ہیں اور ڈگریاں حاصل کرنے کے بعداچھی ملازمتوں پر برسرروزگار ہوجاتے ہیں۔
چونکہ دینی مدارس کے قیام کا مقصد ایسے طلبہ کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جو میدان علم وعمل میں اتر کر دینی تعلیم کی نشر واشاعت کا فریضہ انجام دیں۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا دینی مدارس کے فارغین کو عصری جامعات کا رخ کرنا چاہیے کہ نہیں۔ دینی تعلیم کے بعد مزید عصری تعلیم سے آراستہ ہونا چاہیے یا نہیں؟ بعض کا خیال ہے کہ فارغین جامعات کو ان عصری جامعات کا رخ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عصری جامعات کے کھلے،بے روک ٹوک اور مخلوط ماحول میں پہنچ کر بہت سارے فضلاء نہ صرف اپنے مشن سے غافل ہوجاتے ہیں بلکہ وہ غیر اسلامی ماحول میں رنگ جاتے ہیں۔دین بیزار ہوجاتے ہیں، بگڑ جاتے ہیں، بے راہ رو ہوجاتے ہیں۔ اسی نقطہ نظر کے تحت بعض مدارس اپنے طلبہ کو عصری جامعات میں داخلے کی اجازت تک نہیں دیتے۔ جب کہ بعض کا خیال ہے کہ اگر طلبہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے بھی آراستہ ہونا چاہتے ہیں۔ انگریزی زبان کے علاوہ تاریخ، سوشل سائنس،قانون، معاشیات، کمپیوٹر سائنس،انفارمیشن ٹکنولوجی، اقتصادیات وغیرہ مضامین میں بھی اگر مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی علمی تشنگی کو مزید فرو کرنا چاہتے ہیں تو انہیں عصر ی جامعات کا رخ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں ہمیں ایسے ماہر معاشیات، ماہر قانون اور افسران ملیں گے جو اسلامی تربیت کے حامل ہوں گے۔ جنھیں دین کی یک گونہ معلومات ہوگی۔

اس کا بہتر نتیجہ برآمد بھی ہوا۔ مدارس کے کئی فضلاء نے اردو، عربی، اسلامیات، تاریخ، جغرافیہ، سیاسیات، معاشیات،وغیرہ میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ قانون میں بھی ہنر آزمایا۔صحافت میں بھی کئی ایک نے ہنر آزمائے۔ بی بی سی لندن تک میں وہ بر سر روزگار ہوئے۔ کچھ فضلائے مدارس نے ملک کے سب سے اعلی امتحان آئی اے ایس میں بھی کامیابی حاصل کی۔ کئی فضلاء عصری جامعات میں پروفیسرکے عہدے تک پہنچ گئے۔ کئی اردو، عربی، انگریزی، اسلامک اسٹڈیزوغیرہ شعبوں میں صدر شعبہ بھی ہیں۔ کئی اچھے حکیم، طبیب اور ڈاکٹر بھی ہیں۔کئی طلبہ انگریزی اور عربی میں مہارت حاصل کرکے اچھے مترجم اور ٹرانسلیٹر بن کر ہندوستان میں واقع عرب سفارت خانوں کے علاوہ عالم عرب میں اچھی تنخواہوں پر اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔
پہلے حالت یہ تھی کہ اکثر بیشتر مدارس کے ذمے داران ایسے طلبہ کو پسند نہیں کرتے تھے جو عصری جامعات کا رخ کرتے تھے۔ لیکن اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ حالت یہ ہے کہ شمالی ہند کے بیشتر مدارس اسلامیہ نے اپنی اپنی ڈگریوں کو عصری جامعات سے منظور کرالیا ہے۔ کم ہی مدارس ایسے ہیں جو اپنی ڈگریوں کو ان سے الحاق نہیں کرواسکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فضلائے مدارس بڑی تعداد میں بلکہ یوں کہیے کہ جوق در جوق اور غول در غول ان عصری جامعات کا رخ کررہے ہیں۔ان عصری جامعات سے وابستہ ہونے والے اسلامی مدارس کے فضلاء کو تین خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ وہ فضلاء جو عصری جامعات سے وابستگی کے بعد(خواہ یہ وابستگی طالب علمی کی حد تک محدود ہو یاملازمت تک) اپنی وضع قطع کونہیں بدلتے اورعصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دعوت وتبلیغ کے مشن سے بھی وابستہ رہتے ہیں۔ ان کے اندر کسی طرح کا بگاڑ نہیں پیدا ہوتا۔ ایسے فضلاء کی تعداد میری نظر میں دس فیصد ہے۔
۲۔ وہ فضلاء جو عصری جامعات سے وابستگی کے بعد اپنی وضع قطع کافی حد تک یا کسی حد تک بدل لیتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود ان کے اندر کوئی ایسی تبدیلی رونما نہیں ہوتی جسے ہم بگاڑ سے تعبیر کریں۔ان میں سے اکثر لوگ نماز وں کی بھی پابندی کرتے ہیں۔ دین اور دعوت وتبلیغ کا بھی احساس وشعور رکھتے ہیں۔ دینی مدارس سے بھی انہیں ہمدردی، لگاؤ اور محبت ہوتی ہے۔ البتہ وہ دعوتی مشن سے وابستہ نہیں ہوتے۔میری نظر میں ایسے فضلاء کی تعداد تقریبا اسّی فیصد ہے۔ ان میں سے بہت سارے فضلاء کے یہاں ایک ایسی چیزضرور پائی جاتی ہے جسے ہم احساس کمتری کے نام سے موسوم کرسکتے ہیں۔کیونکہ ان میں سے بہت سارے حضرات اپنے آپ کو مدارس کا فاضل تو سمجھتے ہیں لیکن کھلے عام مدرسے سے اپنی وابستگی کا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
۳۔ تیسری قسم ان فضلائے مدارس کی ہے جن کے اندر بگاڑ کی ہر شکل پائی جاتی ہے۔ وضع قطع بھی بدل جاتی ہے۔ذہن وفکر اور خیالات تک میں بدلاؤ آجاتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اہل مدرسہ نے واقعی ان کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ اسی لیے یہ لوگ اس طرح کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے انہوں نے مدارس کا کبھی منہ نہیں دیکھا۔ یہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمیشہ سے انگریزی تعلیم یافتہ تھا۔ مالدار تھے۔ صاحب ثروت اور بارسوخ تھے۔ ڈاکٹروں اور انجینئروں کے گھرانے میں ان کی نشو ونما ہوئی ہے۔وہ اسلامی مدارس پر تیکھی تنقید کرنے اور انہیں برا بھلا کہنے میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔اور جب وہ عصری جامعات کے کھلے ماحول میں سانسیں لیتے ہیں توبگاڑ کی ہر حد پار کرجاتے ہیں۔شرم وحیا کی سرحدیں پھلانگ جاتے ہیں۔ ان میں ہر وہ چیز پائی جاتی ہے جسے آپ بگاڑ سے تعبیر کرسکیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فضلائے مدارس اسلامیہ میں عصری جامعات سے وابستہ ہونے کے بعد یا فراغت کے بعد میدان عمل میں اترنے کے بعد ان کے اندر سے اسلام کے دعوتی مشن سے وابستگی کا جذبہ کیوں ختم ہوجاتا ہے۔ کیوں ان کے اندر بگاڑ کی مختلف شکلیں جنم لے لیتی ہیں۔ ان سوالات پر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کے اندر پائے جانے والے بگاڑ کے درج ذیل اسباب ہیں:
۱۔ اختلاط۔ عصری جامعات کے اندر پایا جانے والا مردو زن کا اختلاط اس بگاڑ کا ایک بہت بڑابلکہ بنیادی سبب مانا جاتا ہے۔
۲۔ پابندی کا اٹھ جانا۔مدرسے میں طلبہ پر بے شمار پابندیاں عاید رہتی ہیں۔ یہ نہیں کرسکتے۔ وہ نہیں کرسکتے۔ یہاں نہیں جاسکتے۔ وہاں نہیں جاسکتے۔ یہ نہیں پہن سکتے۔ وہ نہیں پہن سکتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب وہ آٹھ سال کی اس شدید پابندی کے بعد مدارس کے ماحول سے نکلتے ہیں تو باہر کی دنیاکی چکاچوندھ دیکھ کر ان کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔عصری جامعات میں ان پر کسی طرح کی دینی، شرعی یا اخلاقی پابندی نہیں نظرآتی تو پھر وہ ہر قید سے آزاد ہوجاتے ہیں۔یہ آزادی انھیں ان کے مقصدحیات اورمدارس اسلامیہ کے نصب العین سے غافل کرکے انھیں بے راہ روی اور دین بیزاری کا شکاربنادیتی ہے۔
۳۔ پیسے کمانے کی فکر۔ بہت سارے فضلاء ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر دینی شعور جا گزیں نہیں ہوپاتا۔ حلال اور حرام کی تمیز کے وہ قابل نہیں ہوتے۔وہ صاحبان ثروت کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی خواب دیکھنے لگتے ہیں کہ ا ن کے پاس بھی اسباب عیش وعشرت کی فراوانی ہو۔ مدرسے سے فراغت کے بعد جب ایسے فضلاء خود کو کسی مسجد میں امامت یا کسی مدرسے میں تدریس کے اہل نہیں پاتے یا دعوت وتبلیغ کے شعبے میں خود کو فٹ نہیں کرپاتے تو وہ کسی ایسی تعلیم کے حصول کی تگ ودو میں مصروف ومنہمک ہوجاتے ہیں جہاں پہنچ کر انہیں تعلیم بھی ملے اور پیسے اورملازمت بھی۔ عصری جامعات اور وہاں دی جانے والی تعلیم انہیں پیسے دینے والی مشین نظر آتی ہے تو وہ وہاں جاکر انہیں شعبوں میں داخل ہوتے ہیں جہاں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ پیسے کما سکیں۔ظاہر ہے زندگی گذارنے کے لیے پیسے کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آٹھ دس سال متواتر مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب وہاں کا فاضل عصری جامعات کی کھلی فضاؤں میں پہنچتاہے تو وہ بے راہ روی یا بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے اسباب بھی درج ذیل ہیں:
۱۔ مدارس اسلامیہ کا نصب العین اور مشن۔مدارس اسلامیہ کے قیام اور تاسیس کا نصب العین اور ہدف اولین دینی تعلیم کی نشر واشاعت اور اس کے فروغ کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ میں دینی بیداری پیدا کرنا اور برادران اسلام تک اسلام کی روح کو پہنچاناہے۔ لیکن چونکہ یہ نصب العین مشن میں تبدیل نہیں ہو پاتے۔ اس لیے طلبہ کی روح کے اندر ان کے مزاج کے اندریہ نصب العین راسخ نہیں ہوپاتے۔لہذاجب وہ کسی کھلے ماحول میں جاتے ہیں تو اس نصب العین سے غافل ہوجاتے ہیں۔یوں بھی بہت سارے طلبہ اپنے اختیار سے نہیں بلکہ مجبورا مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ان میں سے بیشتر وہ ہوتے ہیں جن کے ماں باپ انہیں انگریزی اسکولوں میں داخل کروانے کے اہل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مدرسوں میں داخل کردیتے ہیں کہ یہاں نہ فیس دینی پڑتی ہے اور نہ ہی کھانے پینے کا خرچ اٹھانا پڑتا ہے۔ لہذا بہت سارے طلبہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتے یا ہم انہیں سمجھا نہیں پاتے کہ وہ کس عظیم تعلیم اور تحریک کا حصہ بن رہے ہیں اور پھر وہ اپنے آپ کو اسلامی مزاج میں ڈھالنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔
۲۔تعلیم کے ساتھ تربیت کی کمی۔ مدارس میں تعلیم بڑے اہتمام کے ساتھ دی جاتی ہے۔اچھا نصاب تعلیم بنایا جاتاہے۔ اچھے اور ماہر اساتذہ کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ اولی سے لے کر جماعت ثامنہ تک اسلامیات اور عربی زبان کی بہت اہم کتابیں پڑھائی بھی جاتی ہیں۔ طلبہ اپنی اپنی انجمنوں میں خطابت کے گر بھی سیکھتے ہیں۔ کچھ طلبہ ذاتی دلچسپی کی وجہ سے صحافت وادبیات سے بھی رشتہ استوار کرلیتے ہیں۔

مدارس کازیادہ فوکس تعلیم پر ہوتا ہے۔تعلیم کے ساتھ تربیت کاخاطر خواہ اہتمام نہیں ہوپاتا۔طلبہ کو دینی غیرت وحمیت کا حامل بنانے میں کسر رہ جاتی ہے۔ دعوت کیسے دی جائے۔مدعو کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ فلاں فلاں مضامین کی تدریس کیسے کی جائے۔ ان پر عملی طور سے کوتاہی اور سستی پائی جاتی ہے۔یعنی عملی تربیت اور ٹریننگ کے فقدان کے باعث یہ طلبہ مدارس کے مقاصد کو آگے لے جانے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ جب کہ یونیورسٹیوں کے تمام پروفیشنل مضامین میں لیبارٹری کا ویٹج پچاس فیصد کے برابر ہوتا ہے۔ لیبارٹری اور تھیوری کے یکساں پچاس پچاس نمبرات ہوتے ہیں۔ جو طالب علم لیب میں پاس نہیں ہوتا وہ تھیوری میں بھی پاس نہیں مانا جاتا۔سوال یہ ہے کہ مدارس میں تربیتی جز پر کتنا فوکس کیا جاتا ہے۔ کتنے طلبہ کودعوت وتبلیغ کی ٹریننگ دی جاتی ہے؟ وقتا فوقتا طلبہ کو خطاب بھی کیا جاتا ہے۔ انہیں نصیحتیں بھی کی جاتی ہیں۔ نماز میں حاضری بھی ہوتی ہے۔ غیر حاضری پر جرمانہ بھی عاید کیا جاتا ہے۔ لیکن کتنی مرتبہ ایسے ٹریننگ پروگرام منعقدکیے جاتے ہیں جن کے ذریعے طلبہ کو ٹرینڈ کیا جائے۔ان کے اندر گناہ اور ثواب کا تصورپیدا کیا جائے۔ نماز پڑھنے اور چھوڑنے پر ثواب وعقاب کی بشارت و وعید کا احساس دلایاجائے؟ پہلی صف کا ثواب کیا ہے؟ مدارس کی اہمیت کیا ہے؟ مدارس نے ہندوستان میں اسلامی تشخص کے تحفظ میں کیا کردار رہا ہے؟ مدارس کی تعلیم عصری تعلیم سے برتر ہے اور کیوں؟ کبھی کیوں ایسا نہیں کیا جاتا کہ طلبہ کو دو تین گروپوں میں اس طرح اچانک تقسیم کرکے ان کے ٹیلنٹ کا امتحان لیا جائے کہ کچھ طلبہ کو داعی اور کچھ کو مدعو بنادیا جائے۔ داعی سے کہا جائے کہ جائے اور مولانا صاحب سے الٹے سیدھے سوالات کرے۔ اور ایک ہی سوال کرکے انہیں مشتعل کرنے کی کوشش کرے۔اور پھردیکھا جائے کون سا داعی کتنا مشتعل ہوتا ہے۔ کون سا داعی کس قدر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔یہ بتایا جائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم دعوت کا کون سا اسلوب اختیار کرتے تھے۔ مدعو کی سختی یا بدخلقی پر کسی طرح کے اشتعال یا بد اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ بلکہ وہ صبر کرتے تھے۔لہذااساتذہ کی نگرانی میں اس طرح کے پروگرام منعقد کیے جائیں اور طلبہ کو ہر طرح کے حالات سے نپٹنے کے لیے تیار کیا جائے۔ تب جاکر ان کے اندر ایسا داعی پیدا ہوگا جو کسی بھی ماحول میں جاکر بے راہ روی کا شکار نہیں ہوگا۔آپ دیکھتے ہیں کہ ایک دکاندار اپنے خریدار کو دس دس بیس بیس کوالٹی کے سامان بار بار دکھانے میں کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہیں کرتا۔ اس کے باوجود بھی جب خریدار اس کا سامان نہیں لیتا تو وہ اشتعال کا شکار نہیں ہوتا۔ جب کہ اکثر یہ دیکھاجاتا ہے کہ اگر کسی مولانا صاحب سے دو یا دو سے زائد مرتبہ کوئی مسئلہ پوچھ لیا جائے تو تیوری چڑھ جاتی ہے۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔جب کہ یہ”ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی احسن“ کے نصب العین کے بالکل خلاف ہے۔
اس موضوع پر تبادلہئ خیال کے دوران میرے ایک فاضل دوست اور ماہر امراض اطفال نے مجھے بتایاکہ سویت یونین میں بارہویں کے بعد طلبہ کو ٹور پر لے جایا جاتا تھا۔ انہیں ہر قسم کے حالات کا سامنا کرایا جاتا تھا۔ جو جس مزاج کاحامل نظر آتا اس کے مطابق کسی کو میڈیکل تو کسی کو انجینئرنگ وغیرہ مضامین میں داخل کیا جاتا تھا۔بعینہ اسی طرح طلبہ کا مزاج دیکھ کر ان کی تربیت کی جائے۔ کسی کو شعبہ  تدریس سے تو کسی کو شعبہ خطابت سے، کسی کو شعبہ امامت سے، کسی کو شعبہ صحافت سے، کسی کو شعبہ دعوت وتبلیغ، اور کسی کو افتاء وغیرہ کے شعبے سے جوڑا جائے۔یعنی تدریس کے ساتھ ساتھ ان کی مکمل تربیت کی جائے۔
۳۔فارغ ہونے والے طلبہ سے مدارس کا قطع تعلق ہونا۔ اکثر مدارس میں ایسا دیکھا جاتا ہے کہ دستار بندی کے بعد، فضیلت سال آخر کے امتحان کے بعد ذمے داران مدارس اپنے فارغین کی کوئی کھوج خبر نہیں لیتے۔وہ کہاں گئے؟ کس حال میں ہیں؟ کیسے ہیں؟ مدارس کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ نہ ہی تنظیم ابنائے قدیم کے قیام کا اکثر کے یہاں کوئی تصور ہے لہذا جب مدارس کے ذمے داران اور وہاں کے اساتذہ اپنے فارغین کی کوئی کھوج خبر نہیں لیتے۔ ان سے ان کا رابطہ نہیں ہوتا تو طالب علم ایک طرح سے انہیں کسی طرح کا جواب دہ نہیں پاتا اور وہ حسب ماحول جس طرح مناسب سمجھتا ہے اپنے آپ کو سیٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اور بے راہ دین بیزار بھی ہونے میں اسے کسی کی جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مدرسے میں ذمے داران گرامی اور اساتذہ کرام کی نگرانی میں ابنائے قدیم کی تنظیم ہو۔ جو نہ صرف ان سے رابطہ رکھے بلکہ ان کی خبر گیری بھی کرے۔ فراغت کے بعد کسی حد تک تمام طلبہ کی نہ سہی تو کم از کم ممتاز طلبہ کی ملازمت کی بھی کوشش کی جائے۔ انہیں اپنے سالانہ پروگراموں میں مدعو کیا جائے۔ ان سے رابطہ استورا رکھا جائے۔یوں وہ طلبہ اپنے مدارس کے ہمیشہ مرہون منت بھی رہیں گے اور بے راہ روی کے شکار بھی نہیں ہوں گے۔لیکن جب انہیں خودملازمت کے مواقع تلاش کرنا پڑتا ہے۔ مدرسے سے کسی طرح کا تعاون بھی نہیں ملتا۔ ان کی طرف سے کسی طرح کی پہلے والی پابندی بھی نہیں رہتی تو وہ کچھ بھی کرگذرنے میں کسی طرح کی شرم اور عار محسوس نہیں کرتا۔ظاہر ہے مدارس کے فضلاء کی بے راہ روی کی ذمے داری سب سے پہلے خود ان پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے بعد اخلاقی طور پر ان کے مدارس پر اور پھر عصری جامعات پر۔خودان پر اس لیے کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کوذہن سلیم دیا ہے، اچھے برے کی تمیز کا سلیقہ عطا کیا ہے اس لیے کسی بھی انسان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ پنے ذہن کو استعمال میں لائے بغیراچھے اور برے کی شناخت کے بغیرکوئی بھی ڈگر اختیار کرجائے۔ مدارس پر اخلاقی ومذہبی ذمے داری اس لیے عاید ہوتی ہے کہ کہ وہ ایسا پروڈکٹ تیار کرتے ہیں جو مارکیٹ میں بکتا ہی نہیں۔ یا کسی اور رنگ میں بہ آسانی رنگ جاتا ہے۔ عصری جامعات پر اس کی ذمے داری بہت کم عاید ہوتی ہے کہ ان کے نصاب تعلیم میں اخلاقیات کو بہت کم دخل رہ گیا ہے۔ ان کا مقصد تعلیم دینا اور روزگار کے لیے پروڈکٹ تیار کرنا ہے اور بس۔
دوستو!یہ موضوع خالص تفکراتی ہے۔ اس کے لیے کوئی واضح اصول مرتب نہیں کیے جاسکتے۔ اس لیے اس مضمون میں پیش کیے گئے خیالات سے ہر کسی کو بھی اختلاف واتفاق کا حق ہے۔میں نے ذکر کیا ہے کہ عصری جامعات سے وابستہ دینی مدارس کے وہ فضلاء جو بگاڑ کی کسی حد تک چلے جاتے ہیں، ان کی تعداد صرف دس فیصد ہے۔ اسّی فیصد وہ فارغین ہیں جو دعوت وتبلیغ کے مشن سے وابستہ نہیں ہوتے یا وضع قطع کو بدل کر علماء کے لباس میں نہیں رہتے لیکن پھر بھی انہیں ہم بگڑنے والے فضلاء میں شامل نہیں کرتے کیونکہ ہم اتنے ناامید بھی نہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ میں شکر گزار ہوں جامعہ محمدیہ مالیگاؤں کا جنھوں نے اس طرح کی کانفرنس منعقد کرکے نہایت حساس موضوع پر سوچنے اور غوروفکر کرنے کا موقع فراہم کیا۔اس طرح کی کانفرنسوں میں سرجوڑکر اگر بیٹھا جائے اور غور وخوض کیا جائے تو مدارس کے طلبہ چونکہ ذہین ہوتے ہیں اور محنتی بھی اس لیے ہم انہیں صحیح ڈگر پر چلا سکتے ہیں۔ انہیں درست سمت کا مسافر بنا سکتے ہیں۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز

 

ڈاکٹر شمس کمال انجم