آج کل ہر کوئی پریشان ہے چاہے کوئی married ہے یا unmarried، لیکن غیر شادی شدہ افراد ایسے ایسے فتنوں میں گھرے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی کہ آنے والی نسل کا کیا بنے گا؟!
ہماری اولاد کو ٹریننگ اور تربیت کی ضرورت ہے۔ صرف بچے پیدا کرنا، کھانا پینا اور سونا، یہ سب خصلتیں جانوروں میں بھی ہیں۔
بچے پیدا کر کے انکی اچھے سے تعلیم و تربیت اور انھیں معاشرے کا مفید فرد بنانا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔
اگر کوئی عورت دس بچے پیدا کرے اور ان میں سے کسی کی بھی پرورش نہ کرے تو وہ معاشرے کے لیے ناسور بن جائے گا اور ایسا بگاڑ پیدا کرے گا کہ سوسائٹی کی بنیادیں تک ہلا دے۔
ایک دن کلاس میں میڈم صاحبہ بتا رہی تھیں کہ ہمارے جاننے والوں میں ایک شخص کے چار بیٹے اور وہ چاروں کے چاروں بہت قابل۔ ان میں سے دو ایم بی بی ایس، بڑے نیک، متقی اور پانچ وقت کے نمازی۔
لیکن پچھلے دنوں دونوں کو حساس ادارے اٹھا کر لے گئے۔ والدین روئے پیٹے اور واویلا کیا! پتہ چلا کہ وہ دونوں کسی تخریب کاری کو سپورٹ کر رہے تھے!
حالانکہ والدین جب انکی پرورش کر رہے تھے تو کیا کمی رہے گئی جو وہ اس راہ پہ چل نکلے، کیا ہوگا ہمارے معاشرے کا؟!
اگر ماں متقی پرہیز گار اور حسن کردار کی پیکر ہو تو اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے باعمل مسلمان ہونے کا ثبوت دے ۔جب بچہ ماں کے شکم میں ہوتا تو ماں کی habits بچہ محسوس کرتا۔
جب بچہ پیدا ہوتا تو ماں کا کردار سٹارٹ ہوتا کہ وہ کیسا فرد بنا رہی ہے۔
بیٹی کی پرورش کے ساتھ ساتھ بیٹے کی پرورش بھی ضروری ہے۔ اگر بیٹا باحیاء ہو گا تو معاشرے کی ماں بہن بیٹی کی عصمت محفوظ رہے گی۔
اگر رزق حلال ہو تو ہم اپنی اولاد کی تربیت بہترین کرسکتے ہیں۔ رزق حلال نیک اولاد کے لیے شرط اول ہے۔
اسی طرح اگر والدین اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کریں توبچے والدین پر ٹرسٹ کرتے اپنا سب کچھ ان سے ہی شئیر کریں گے۔
والدین میں سے کوئی ایک بچوں کا ایسا دوست ہو وہ بلاجھجک ان سے ہر بات شئیر کریں ۔بچوں کو شروع سے دعا کرنا سکھایا جائے اور کثرت سے درود پاک پڑھنے کی تلقین کی جائے۔
بچوں کو اللہ تعالیٰ سے رحم مانگنا سکھایا جائے۔ انھیں بتائیں اگر ہم رحم مانگیں تو جو جو ہمیں چاہئیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں دیں گے۔ مثلاً اگر ہمیں ایک وقت میں روٹی ،کپڑے ،جوتے اور پیسے چاہیے تو دعا میں ایک ساتھ ایک ٹائم میں ہوسکتا مانگتے ہمارے مائنڈ سے کچھ سکِپ ہو جائے۔
لیکن اگر ہم رحم مانگیں گے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہماری ساری ضروریات ساری حسرتیں اس رحم کے مانگنے سے پوری کر دیں گے۔
بچوں کو شروع میں ہی اپنے لیے بھی دعا کرنا سکھایا جائے، وہی دعا جو والدین کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کی ہے:
رب ارحمھما کما ربینی صغیرا
شروع میں ہی اپنے بچے کو چیک کرتے رہیں، بچے آپ سے سیکھتے ہیں، آپ کا جو رول گھر ،فیملی اور باقی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، بچہ وہ سب ہی adopt کر رہا ہوتا ہے۔
خود کا محاسبہ کیجیے آپ کیا ہیں؟
آپ کتنے لوگوں کے لیے helping hand ہیں اور کس حد تک آپ اپنی اولاد کے سامنے صدقات کر رہے ہیں؟
بچوں میں صبر کے جذبات پیدا کریں۔ انھیں تھوڑے پہ الحمدللہ کہنا سکھائیں، صرف منہ سے الحمدللہ کہہ دینا کافی نہیں، خود میں ایسی abilities پیدا کریں۔ کوشس کریں۔
کوشش کریں کہ اپنے بچوں کے سامنے لڑائی سے اجتناب کریں۔ میاں بیوی میں ہزار طرح کے مسائل ہوسکتے ہیں، انھیں بچوں کے سامنے discuss مت کریں۔
اپنے رشتے کو نبھانے کے لیے اپنی ego کو قربان کرنا سیکھیں، رشتے ایسے ہی آ ئیڈیل نہیں بن جاتے۔
ان کے لیے سہنا پڑتا، برداشت کرنا پڑتا ہے۔ سسکیوں کو دبانا پڑتا ہے۔ بچوں سے اپنے تلخ لمحات چھپا کر اپنی خوشیوں کو show of and celebrate کرنا ہوتا ہے۔ اپنے شوھر سے محبت نہ ہوتے ہوئے بھی محبت کا اظہار کرنا ہوتا ہے، کیونکہ اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اجر رکھا ہے۔
کیا اس اجر اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہم اتنا نہیں کر سکتے؟َ!
اگر عورت ایک شخص کے سامنے اپنی انا، ضد اور اس طرح کے باقی فضول قسم کے جذبات کو لگام دے لے تو سب کے سامنے عزت سے رہ سکے گی ورنہ سب کے سامنے رسوا اور خوار ہو گی۔
آجکل بچوں بچیوں کی ازدواجی زندگی میں جو مسائل آرہے ہیں، انکی وجہ کہیں نہ کہیں والدین کے ساتھ غیر دوستانہ تعلقات اور باہر دوستیاں زیادہ ہیں۔
الغرض! اس پر فتن دور میں بچوں کی تربیت سب سے اہم، مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ اس پہ سب سے زیادہ focused ہونا ضروری ہے کہ یہ ہماری آخرت کو ہمارے بعد سنوارنے کا ذریعہ ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
“إن الله عز وجل ليرفع الدرجة للعبد الصالح في الجنة فيقول: يا رب انى لي هذه؟ فيقول: باستغفار ولدك لك. رواه احمد”. [مشكوة المصابيح كتاب الدعوات]
”اللہ عزوجل صالح بندے کا جنت میں درجہ بلند فرماتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے: رب جی! یہ مجھے کیسے حاصل ہوا؟ تو الله تعالي فرماتا ہے: تیرے بچے (بیٹا، بیٹی) کے تیرے لئے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے“-
از قلم: ساجدہ ابرہیم
العلماء شعبہ خواتین