اور بَلّا چھن گیا

مُلک بھر میں انتخابات کا موسم جوبن پر ہے، ہر طرف سیاسی گہما گہمی اپنے رنگ بکھیر رہی ہے، تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جمہوریت کو کسی سرخ لہنگے میں ملبوس کر کے کسی الھڑ مٹیار کے روپ میں عوام کے سامنے پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھ رہیں۔آج اس سیاسی شوخ و چنچل ماحول میں پی ٹی آئی کی ہواؤں کا رخ بدل دیا گیا ہے، اس کی امنگوں اور آرزوؤں میں وہ حُسن و جمال اور رعنائی باقی نہیں رہی، جو 9 مئی کے سانحے سے قبل ان کا خاصہ تھیں، پی ٹی آئی کی آس، امید اور توقعات میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی دوبارہ اقتدار میں آنے کی حسرتیں ماند پڑتی دِکھائی دے رہی ہیں، آئیے عدالت عالیہ کا منظر دیکھتے ہیں۔
” الیکشن کی پولنگ کہاں ہوئی تھی؟ “ یہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا سوال تھا، جس کا جواب یوں دیا گیا:-
” کے پی کے سے تعلق رکھنے والے ایک دور دراز گاؤں میں “ ایک ایسا گاؤں جہاں گاڑی بھی مشکل ہی سے جاتی ھے، دھرنے ڈی چوک میں دیے گئے، شور شرابا اور اودھم تمام بڑے شہروں میں مچایا گیا اور حیرت ہے کہ پارٹی الیکشن کی پولنگ دُور دراز پہاڑی علاقوں میں ہوئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سوال تھا کہ ” اگر 6 پینل تھے اور یہ سارے منتخب ہو گئے تو پھر اجتماع کی کیا ضرورت تھی؟ “
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا جواب تھا کہ ” سیاسی جماعتوں میں اپنے لیڈر کی عزت کے تحت لوگ ان کے فیصلے کی مخالفت نہیں کرتے، پی ٹی آئی کے پاس بانی پی ٹی آئی جیسی قیادت ہے جس کے فیصلے پر لوگوں نے اعتراض نہیں کیا “
چیف جسٹس نے کہا کہ ” معذرت کے ساتھ پھر یہ جمہوریت نہیں، آمریت ہے، کچھ عہدے داروں پر اعتراض نہ ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر کسی پر بھی اعتراض نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے، اب اگر 8 فروری کے انتخابات میں پارلیمنٹ میں 326 لوگ بِلا مقابلہ آ جائيں تو کیا وہ الیکشن ہوگا ؟ عقل و دانش بھی کوئی چيز ہوتی ہے “
اور اس کے بعد پی ٹی آئی سے بَلّا واپس لے لیا گیا۔
پی ٹی آئی کو 2018 ء میں ایک بار اقتدار مل چکا ہے اور اس ” زریں عہد “ میں ان وعدوں کو در خورِ اعتنا تک نہ سمجھا گیا، جن کی تکمیل کا وعدہ کر کے پی ٹی آئی مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئی تھی۔تحریکِ انصاف کے دور میں خود ان کے ممبران اسمبلی بھی منہگائی سے تنگ آ چکے تھے، اگرچہ بعد میں آنے والوں نے منہگائی کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے، مگر تحریکِ انصاف کے عہدِ اقتدار کے آخری سال میں عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ یہ وہ سحر ہر گز نہیں جس کی امیدیں انھوں نے لگا رکھی تھیں، فیض احمد فیض کا شعر ہے:-
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
پونے چار سالہ اقتدار کے بعد پی ٹی آئی حکومت سے محروم ہو گئی تھی۔وزارتِ عظمیٰ چھن جانے پر عمران خان اتنا بپھر گیا اور ہواس باختگی میں اتنی بڑی بڑی غلطیاں کرتا چلا گیا جو ماضی میں کبھی اس انداز میں کسی نے نہیں کی تھیں۔9 مئی کے الم ناک سانحے کی صورت میں پی ٹی آئی کا ایک بہت ہی بھیانک روپ سامنے آیا۔نہیں۔۔۔ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا، اپنے ہی مُلک کی فوج کو اس طرح مطعون کسی طور نہیں کرنا چاہیے تھا کہ جو اس ملک کی سلامتی کے نقصان دہ ہو، یہ سانحہ عالمی سطح پر بدنامی کا سبب بنا۔پہلے ” خلائی مخلوق “ پھر اسٹیبلشمنٹ، پھر کھلم کھلا پاک فوج اور اس کے بعد جرنیلوں کے نام لے لے کر ان پر نقد و جرح کی گئی جو 9 مئی کے سانحے کا سبب بنی۔حیرت ہے کہ 2018 ء میں اور اس قبل جس پاک فوج کی مدح سرائی کی جا رہی تھی، اسی فوج کے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کا سلسلہ بغاوت تک دراز ہو چکا تھا۔عمران خان کو بشیر بدر کا یہ شعر بہ ہر حال یاد رکھنا چاہیے تھا:-
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجایش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
أج گرما گرم سیاسی ماحول میں جس پارٹی کے عہدے داروں سے بھی کوئی سوال کر لیں، وہ دودھ میں نہائے نظر آئیں گے، ان سے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ان کے عزائم کے متعلق پوچھ کر دیکھ لیں وہ زمین آسمان کے قلابے ملا کر رکھ دیں گے، اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی جماعت نے اپنے اقتدار میں پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے لادنے کے سوا کوئی ایسا کام نہ کیا جس سے لوگوں کے ہجوم کو قوم میں تبدیل کیا جا سکے، عمران خان نے آس، امید اور توقعات کی قندیلیں روشن کیں، ریاستِ مدینہ کا ایمان آفریں نعرہ لوگوں کے دلوں کو بھا گیا، آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق توڑ ڈالنے کی صدائیں عوام کو بہت بھلی لگیں، کروڑوں نوکریوں اور لاکھوں گھروں کی صدائیں بہ بانگِ دہل بلند کی گئیں لیکن اقتدار میں آتے ہی تحریکِ انصاف بھی آئی ایم ایف کے چرنوں میں جا بیٹھی۔ریاستِ مدینہ کا کو بہار آفریں جھونکا تک مشامِ جاں سے نہیں ٹکرایا۔
سوال یہ ہے کہ آج پی ٹی آئی کی دگرگوں اور ناگفتہ بہ حالت کا دوش کسے دیا جائے تو میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ عمران خان کی زبان ہے کہ جو اتنی بھٹک چکی تھی کہ اس زبان سے کوئی ادارہ محفوظ نہیں ریا، کسی بھی زیرک اور دانا و بینا سیاست کی زبان اس قدر سرکش نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت کی ہوا دینے لگے۔سیاست میں اخلاق، مروت اور مودت بہ ہر طور قائم رکھنی چاہیے۔خواجہ ساجد کا شعر ہے:-
کل سیاست میں بھی مَحبّت تھی
اب مَحبّت میں بھی سیاست ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتدار کی بہاریں عارضی ہُوا کرتی ہیں، انھیں دوام کبھی حاصل نہیں ہُوا کرتا، 8 فروری کو ایک بار پھر کسی نہ کسی سیاسی جماعت کو اقتدار مل ہی جائے گا، یاد رکھیں! کرسی پر متمکن ہونے کے بعد اگر اللہ کی حدود نافذ نہیں کی جائیں گی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کو حرزِ جاں نہیں بنایا جائے گا اور سود کو ختم کر کے عشر اور زکواۃ کے نظام کو نافذ نہیں کیا جائے تو یہ بات تو طے شدہ ہے کہ اقتدار کا یہ عرصہ بھی پانچ سال بعد تو ختم ہو ہی جائے گا۔ایک نہ ایک دن ہر حکومت کو اقتدار سے الگ ہونا ہی ہوتا ہے۔جس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کئی بار اقتدار ملنے کے بعد اس سے محروم بھی ہوتی رہی ہیں، جس طرح پی ٹی آئی کو حکومت سے علاحدہ ہونا پڑا اور اب بَلّا تک ان سے چھن چکا ہے، نئی بننے والی حکومت بھی ایک دن اقتدار سے الگ ہو جائے گی، اگر مدینے کی طرز پر بننے والی اس ریاست میں مدینے کا آئین نافذ نہیں کیا جائے تو ہر حکومت نے بالآخر اقتدار سے محروم ہونا ہی ہوتا ہے مگر سرخرو اور کامیاب وہی سیاست دان ہو گا جو اس وطن میں اللہ کا نظام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ رائج رائج کرے گا۔حضرت علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کا شعر ہے:-
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں:فرنگی بت کدے کے پنڈت