فرنگی بت کدے کے پنڈت
یار لوگ ہر بات خود پہ لے جاتے اور سمجھتے ہیں کہ
” كل صيحة عليهم “…مدارس اور اہل مدارس کے حوالے سے یہ باتیں اور اس لب و لہجے کا اظہار کوئی نئی بات نہیں ہے…ویسے بھی سوشل میڈیا کی بھیڑ چال دیکھ کر اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا ہے کہ :
یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے
بھانت بھانت کی بولی ٹھولی، رنگ برنگ آوازے
” چینِ جبیں سے غمِ پنہاں ” کا اظہار اور” حُدثاءُ الأسنانِ سُفهاءُ الأحلام ” کی کثرت…ایسے میں جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو کسی شخص کو متعین کرکے اس کے بارے میں بیکار گفتگو کرنے سے بہتر ہے کہ ان جراثیم کا علاج کیا جائے جو اس ہیجان خیزی کا سبب ہیں…برصغیر میں علماء کی تحقیر کا جو منصوبہ لارڈ میکالے نے” برطانوی پارلیمنٹ ” میں پیش کیا تھا اسے سرسید احمد خان صاحب نے اپنے اعتزالی اور ملحدانہ عقائد و نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کے خلاف خوب پروان چڑھایا…ظاہر سی بات ہے اب علی گڑھ میں ان کے زیرِ سایہ تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے ان سے کچھ اثر تو لیں گے…ان صاحبان کے ذہنی سانچے اور فکری سکّے ایک مخصوص ٹکسال سے ڈھلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ترقی نہ کرنے کا سبب ” وجودِ مولوی ” دکھائی دیتا ہے…اب چونکہ ادبی لگاؤ کے سبب حضرت اقبال رحمہ اللہ سے بھی کچھ نہ کچھ یاد اللہ ہوتی ہے اس لیے اقبال کے وہ اشعار جن میں جدید تعلیم یافتہ طبقے اور اس نظام تعلیم پر ناگواری کا اظہار کیا گیا ہے اسے ” مدرسہ اور مولوی ” پر چسپاں کرکے بغلیں بجاتے ہیں اور ستم بالائے ستم خود کو اقبال کا مردِ مؤمن، دانائے راز، مردِ درویش، خودی کا پیکر، نگہانِ خلافت، غازی و پر اسرر بندے، بوئے اسد اللہی کے اوصاف سے متصف، عقاب، شہباز، شاہین، نوجواں مسلم، جوہرِ آئنہ ایام، ہند میں سرمایہء ملت کا نگہبان اور اس جیسے دیگر القاب کا حامل اور چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا جیسے نعرے لگا کر یا لگوا کر خود کو اس زمانے کا امامِ برحق سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ اقبال نے اپنی شاعری اور نثر میں ان آشفتہ مغزوں کے لیے جو القابات تجویز کیے وہ کچھ یوں ہیں :
بتان وہم و گماں، زناریء برگساں، خان زادگانِ کبیر، نقش فرنگ، نیام تہی، وجودِ محض، مرکب ایام، فتنہء عصر، مور و مگس، لبِ گور، ارواحِ خبیثہ، بیگانہء خودی، داشتہء فرنگ، ” بندگان معاش “، غارت گرِ دین، قمار باز، مردِ بے کار، زن تہی آغوش، رات کا شہباز، ادراک فروش، ابلیس زادے، سوداگران مے و قمار، تاجران زنانِ بازاری، جان بھی گرو غیر بدن بھی گرو غیر، مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس، جوانان خاک باز، کرگس، شکم پرست، صیدِ ظن و تخمین، ذریت افرنگ، ممولا، نگاہش نقش ہندی کافری ہا، بینائے غلط بین، بے دین دانشمند، خرِ استعمار، نہ معرفت نہ محبت، نہ زندگی نہ نگاہ، زاغ دشتی، جہل مرکب، حشیش فروش، شرع پیغمبر سے بیزار، شکار مردہ، ہم نفسان خام اور مفلسان شعر.
خوانندگان محترم یہ وہ القابات و اعزازات ہیں جو اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے قوم کی رہبری کے مرض میں مبتلا خود ساختہ قائدین کرام کے لیے تجویز کئے…مگر خلیفہ عبد الحکیم مرحوم اور ان جیسے حضرات نے کمال چابکدستی سے ثقافت اسلامیہ میں کثافت کی پیوند کاری کی اور اپنی کتب اور مقالات میں یہ القابات مولوی اور مدرسہ کے سر مونڈھ دیے…اب ہمارے نونہالوں نے اقبال کی کچھ غزلیں اور چند اشعار نصابی کتب سے بامر مجبوری رٹ تو لیے مگر اقبال کی شاعری پروفیسر آرنلڈ،عجمی تصوف، ترانہء ہندی سے ہوتے ہوتے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے آستانے پہ پہنچ کر کب مرید ہوئی اور آخری عمر کی شاعری میں افکار و نظریات میں کیا تلاطم پیدا ہوا اور نظم کے علاوہ نثر میں خصوصاً اپنے مکاتیب میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاعری کی کیا شرح کی اس سے یہ احباب قطعاً بے خبر ہیں…
نثر نگار : حافظ عبد العزیز آزاد