اول بھی تو ہے اے اللہ، آخر بھی تو،

(انت الاول فلیس قبلک شیئ، وانت الاخر فلیس بعدک شیئ)

غزہ تباہ ہوچُکا ہے،میری تحریروں سے جن جن کو پِیڑ ہوئی، اُن سے معذرت! سچ ہے کہ یہ وقت موسم ریاض کے ناچ گانے کا تھا، یہی منھج حق تھا جو سلیمان رُحیلی بیان کررہا ہے کہ جہاد فلسطین جہاد نہیں۔ یہ “سلف” کے خلاف ہے۔ ہمی سے غلطی ہوئی ہم اسے جہاد کہہ سمجھ کر “شریعت“ کی مخالفت کرتے رہے، پُرانے دوستوں کو ناراض کیا۔ تازہ دُشمنوں کو زندہ کیا۔ ایران بھی ٹھیک تھا،

تُرکی بھی اور مصر بھی جنہوں نے ملکر محاصرہ کیا۔ سعودی بھی جسے امریکہ اور اسرائیل کا قُرب صال ملا، اسماعیل ہنیہ بھی جو رُوس کی گود میں بیٹھ گیا اور الفتح بھی جس کا اقتدار محفوظ رہا۔ یہ سب ٹھیک تھے صرف شہدائے غزہ اور ہزاروں بچوں کا بہتا ہوا خُون غلط تھا جو آج بھی فضاؤوں میں کستوری بن کر مہک رہا ہے۔ ان کی مدد کسی کلمہ گو ریاست یا مسلمان پر واجب نہیں تھی۔ قدس کو تنجیس یہود سے روکنے کے لیے جہاد بھی کسی کی ذمہ داری نہیں تھی۔ یہی منھج “حق” تھا۔ جو اس کے خلاف سوچتا وہ لوگوں کو “گُمراہ” کرتا تھا۔ وہ “توحید” کو نہیں سمجھتا تھا۔ اُسے کیا پتہ کہ “کتاب التوحید” کے حاشیۃ ابن قاسم میں کیا لکھا ہے؟ اُسے کیا معلوم کہ “القواعد الاربع” کی عبارتیں کیا کہتی ہیں، نہ اُسے سلف کی کتابوں سے فقہ الجہاد سمجھ آسکا نہ تعامل کُفار کی بحثیں۔ وہ تو جذباتی تھا۔ ان بحثوں کو سمجھنے کے لیے دس بارہ سال کی ریال خوری کے بعد دکتوراہ لینا پڑتا ہے پھر ہزاروں فلسطینی بچوں کو مروا کر اور ڈانس ٹُھمکوں کی محفلوں پر سکوت اور اطمینان مرگ سے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اعتدال کیا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اعتدال کتاب اللہ کی نصوص سے نہیں، استنباط و استدلال سے نہیں، شاہ صاحب کے سرٹیفیکیٹ سے ملتا ہے۔ البتہ، اس پر پُورا اطمینان ہے کہ سب کُچھ اُس کے پاس محفوظ ہوچُکا ہے جو حقیقی عدل کرنے والا ہے۔

ضیاء اللہ برنی