سوال
حاجیوں کی طرف سے ایک سوال ہے، کہ کچھ احباب جن کے ساتھ خواتین بھی ہیں ان کا معلم کہہ رہا ہے کہ آج جمعہ کا دن ظہر سے پہلے رمی کر لیں شرعی اعتبار سے تو اس کا وقت ظہر کے بعد ہے۔ لیکن اگر وہ ظہر کے بعد کرتے ہیں تو مغرب سے پہلے منی سے نکلنا مشکل ہو گا، کیونکہ ان کا مکتب جمرات سے دور ہے۔ احناف تو اس بارے میں گنجائش دیتے ہیں کہ ظہر سے پہلے کر سکتے ہیں؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
ایام ِ معدودات 11،12،13 میں رمی کا ٹائم زوال کے بعد ہے۔ زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ سیدناجابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“رَمَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى، وَأَمَّا بَعْدُ فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ”. [مسلم:3141]
’کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن چاشت کے وقت کنکریاں ماریں، اور اس کے بعد جب سورج ڈھل گیا تب کنکریاں ماریں‘۔
ہاں مجبوری کے وقت رمی ساکت ہو جائے گی، لیکن رمی حج کے واجبات میں سے ہے تو جس کی رمی رہ جائے اس پر فدیہ ہے،جو ( ایک بکری یا 6 مساکین کا کھانا یا تین دن کے روزے رکھنا ہے۔)
رمی زوال کے بعد ہی ہے اگر ہجوم کی وجہ سے مغرب سے پہلے منیٰ سے نکلنا مشکل ہے، اور مغرب سے پہلے نہیں نکلا جاتا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور جو مشقت ہوتی اس کو برداشت کریں کیونکہ اسی وجہ سے اجر ملنا ہے۔
تو اس مشقت کو برداشت کرنا چاہیے اپنی آسانی کےلیےٹائم کو نہیں بدلنا چاہیے، اگر آسانی کے لیے وقت بدلنا جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ سلم کے لیے بھی زوال سےپہلے رمی کرنا آسان تھا،کیونکہ وہاں زوال کے بعد بہت گرمی ہوتی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ سلم نے پھر بھی زوال کے بعد رمی کی ہے۔
لہذا رمی جمار زوال کے بعد ہی ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ