اہلِ کشمیر کی بے لوث اور بے غرض مَحبّتوں سے آنکھیں چُرانے اور ایک عرصے تک کشمیر کو بھلائے رکھنے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ آج بھارتی وزیرِ خارجہ کی دھمکی آمیز باتوں میں اتنی شدید نفرت اور حقارت گُھل چکی ہے کہ وہ مذاکرات پر بھی آمادہ نہیں، بھارتی وزیرِ خارجہ نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ” پاکستان کا سری نگر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، پاکستان کی ساکھ اس کے غیر ملکی زرِ مبادلہ سے بھی زیادہ تیزی سے گر رہی ہے “ بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ” گوا “ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اختتامی اجلاس کے بعد جمعے کی شام ایک نیوز کانفرنس میں پاکستان پر اتہامات و الزامات لگائے کہ ” پاکستان نہ صرف دہشت گردی کر رہا ہے بلکہ وہ اسے جائز ٹھہرانے کی بھی کوشش کر رہا ہے “ اگرچہ اس چنار وادی کے حرماں نصیب لوگ آج بھی پہلے جیسی جاں بازی اور جاں سپاری کے ساتھ جدوجہدِ آزادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے اذہان میں پاکستانی سیاست دانوں کے ساتھ ایقان کے وہ ایمان مآب جذبے موجود نہیں رہے، جو ماضی قریب تک اُن کے تلاطم خیز جذبات کا حصّہ تھے۔شاید اس شہرِ آرزو کے وہ جنوں کیش لوگ، پاکستانی سیاست دانوں سے مایوس اور نا امید ہو چکے ہیں۔ان کی بلکتی آہوں میں ہمارے سیاست دانوں کے لیے آس، امید اور توقعات کے وہ دیپ اب بجھتے چلے جا رہے ہیں، جن کی تابندگی سے وہاں کی وادیاں دمکتی تھیں۔تقریباً تمام سیاسی جماعتیں دھیرے دھیرے اپنی شاہ رگ کے ساتھ جذباتی اور جغرافیائی وابستگی کو فراموش کرتی جا رہی ہیں۔بھارتی فوج کا کشمیری مظلوم ماؤں بہنوں پر ظلم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اکبر حیدری کشمیری کا شعر ہے :-
صبر کرتی ہی رہی بے چارگی
ظلم ہوتا ہی رہا مظلوم پر
آج تین بڑی سیاسی جماعتیں اِس زعم میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ان کا اقتدار میں آنا ناگزیر ہے، حالاں کہ یہ بات انتہائی فضول اور فرسودہ ہے۔ان میں سے کسی بھی سیاسی جماعت کی عدم موجودگی، پاکستان کے استحکام کے لیے کوئی خطرناک بات نہیں، البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کا وجود پاکستان کی سلامتی کے ضرور خطرہ بنا ہُوا ہے۔لوگوں کی اکثریت اب مذہبی شدت پسندی کے مہیب دائرے سے ہجرت کر کے سیاسی شدت پسندی کے بھیانک زاویوں میں داخل ہو چکی ہے۔عقیدتوں کا بے مہار طوفان ہے جو پاکستان کے لوگوں کو سیاسی شدت پسندی اور سیاسی انتہا پسندی کی بے توقیر دلدلوں میں دھکیلتا جا رہا ہے۔آپ سب خوب جانتے ہیں کہ محبتیں بے لگام ہو جائیں یا عشق اپنی رسّیاں تڑوا کر معاشرتی اطوار اور اخلاقی آداب سے بغاوت کر بیٹھے تو کوئی نہ کوئی چاند ضرور چڑھتا ہے۔یہ منہ پَھٹ اور بے لگام سیاسی دیوانگی کئی دل سوز سانحوں کو جنم دے چکی ہے، اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ جب بھی ایسا کوئی دل خراش واقعہ پیش آ جاتا ہے تو عوام بھی اپنی عقل و دانش اور شعور و آگہی سے اتنے بے گانے ہو جاتے ہیں کہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر خود ہی فیصلہ سنا کر سزا بھی دے ڈالتے ہیں۔کتنے ہی دل سوز واقعات ہیں کہ عوام الناس نے قانون کو اس انداز میں پامال کیا ہے کہ انسانی جان تک کی پروا نہ کی۔مردان کے دل خراش سانحے کو دیکھ لیجیے کہ بہ ہر حال مولانا صاحب کو عقیدت کی حدود و قیود سے اتنی بغاوت نہیں کرنی چاہیے تھی اور اس کے بعد عوام کے مشتعل ہجوم کو بھی پولیس کے پہنچنے سے قبل ہی ایک انسانی خون سے اپنے ہاتھ آلودہ نہیں کرنے چاہییں تھے۔یہ کوئی نئی بات ہر گز نہیں ہے، اس سے قبل بھی ان سے مماثل جملے اپنے اپنے سیاسی قائدین کے لیے ادا کیے جاتے رہے ہیں۔چند ماہ قبل ایک وفاقی وزیر نے انٹرویو میں اپنے قائد کے استقبال کو سفرِ حج سے بھی افضل قرار دے دیا تھا، میزبان کے روکنے کے باوجود وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہا۔پھر ایک بچے نے اپنی پارٹی کے قائد کے والدین کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کے بعد سب سے زیادہ خوش قسمت قرار دے دیا، ظاہر ہے اس میں بچے کو دوش نہیں دیا جا سکتا، اسے تو یہ جملے رٹوائے گئے تھے۔عقیدت کی حدود کو پھلانگنے والے یہ جملے تو وہ ہیں جو بے خودی میں ان کے لبوں سے چھلک پڑے ہیں، ورنہ تو یہ اپنے دلوں میں اپنے سیاسی راہ نماؤں کی اِس سے بھی بڑھ کر عقیدت چُھپائے بیٹھے ہیں۔
آج ہمارے دلوں میں موجزن محبتیں معتدل ہیں نہ نفرتوں میں اعتدال باقی رہا ہے۔ہم بے اعتنائی برتنے پر آئیں تو اپنی شاہ رگ کو دشمن کے خونیں پنجوں میں دیکھ کر بھی غور و فکر پر آمادہ نہیں ہوتے۔
آج لوگ جذبات سے لبالب بھرے بلکہ اٹے ہوئے ہیں اور یہ خیالات کب منفی شکل اختیار کر لیں، اس کا ادراک ہی نہیں ہو پاتا۔مقبوضہ کشمیر پر بھارتی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے، ہم اپنے موقف سے ہی انحراف برتتے جا رہے ہیں۔بھارتی فوج نے پیلٹ گنز کے چھرّوں سے کشمیریوں کی بینائی نوچ لی، ہمارے سیاست دان یہ سب دیکھتے رہے، بھارتی سفاک فوج ایسے کیمیائی ہتھیار جو انسانی گوشت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، اسرائیل سے منگوا کر اہلِ کشمیر کے جسم و جاں پر استعمال کرتی رہی، یہاں کے حکمران ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے رہے، بھارت نے مقبوضہ وادی کی معیشت تباہ و برباد کر کے رکھ دی، ہمارے کسی سیاسی پہلوان کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔بھارتی ہائی کورٹ نے کہا کہ کشمیر میں پیلٹ گنز کا استعمال بالکل جائز اور درست ہے، ہم نے اپنے لبوں پر قفل ڈالے رکھے۔شاد عظیم آبادی کا شعر ہے:-
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہمیں بولنا نہیں آتا۔۔۔نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے، ہم اپنے ہی مُلک میں سیاسی جماعتوں کے خلاف منافرت پر مشتمل لب کشائی کرتے ہیں تو زہر اگلنے لگتے ہیں اور اگر ہم اپنی ہی سیاسی جماعت کے قائدین کے حق میں اپنی زبانوں کو جنبش دینے لگیں تو ان کے لیے استعارے اور تشبیہات بھی پیغمبروں سے کم استعمال کرنے پر اکتفا نہیں کرتے،فارغ بخاری نے بہت عمدہ شعر کہا ہے۔
اظہارِ عقیدت میں کہاں تک نکل آئے!
ہم اہلِ یقیں، وہم و گماں تک نکل آئے