سوال

میرے نانا ابھی زندہ ہیں، انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنا مال اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا ہے، جبکہ بیٹیوں کو کچھ بھی نہیں دیا، کیا ان کا یہ طرز عمل صحیح ہے؟ اور شرعی لحاظ سے ان پر کوئی وعید لاگو ہوتی ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

وراثت کی تقسیم کا صحیح وقت میت کی وفات کے بعد ہے کیونکہ قرآنِ کریم میں اس کے لیے ’ماترک‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ کیفیت وفات کے بعد ہوتی ہے۔

ہاں زندگی میں اولاد کو بطور تحفہ اور گفٹ دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس میں بھی دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے: ایک تو سب اولاد کو  دیا جائے، دوسرا اس میں بیٹے بیٹی کو ایک جتنا ہی حصہ ملے گا،  وراثت کی طرح بیٹے کو بیٹی سے دوگنا نہیں دیا جائے گا۔  جیسا کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے والد کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یا تو اپنی سب اولاد کو  ایک جیسا ہدیہ دو، یا پھر جس کو دیا ہوا ہے، اس سے بھی واپس لے لو، کیونکہ کچھ کو دینا اور کچھ کو محروم رکھنا یہ ظلم ہے۔ [صحیح البخاری:2586،2587،2650]

اسی طرح وراثت میں جس طرح مردوں کا حصہ ہوتا ہے، اسی طرح عورتوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

“لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا”. [النساء:7]

’مردوں کے لئے اس مال میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے بھی ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ اللہ کا مقرر کردہ حصہ ہے‘۔

لہذا بیٹیوں کو یا بہنوں کو جائیداد سے محروم رکھنا اسلامی حکم نہیں بلکہ  یہ جاہلی طور طریقہ اور ہندوانہ رسم و رواج ہے، کیونکہ وہ لوگ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت سے محروم رکھتے تھے ۔

جو لوگ  بعض ورثاء کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں، وہ اللہ کی عدالت میں جوابدہ ہوں گے۔ اگر کوئی مرد یا عورت غلط تقسیم یا وصیت کر کے فوت ہو، تو اس کے ورثا کو چاہیے کہ فوت شدہ کو گناہ اور متوقع عذابِ الہی سے بچانے کے لئے، شرعی قانونِ وراثت کے مطابق ہی تقسیم کریں، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

{فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ}[البقرة: 182]

’جو شخص وصیت کرنے والے کی جانب داری، یا گناہ کی وصیت کر دینے سے ڈرے، پس ان میں آپس میں اصلاح کر دے ،تو اس پر گناہ نہیں، بیشک اللہ تعالی نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘۔

سلف صالحین کہا کرتے تھے کہ بدترين انسان وه ہے جو دنیا کے لالچ میں اپنی آخرت برباد کرلیتا ہے اور اس سے بھی بڑا بدبخت وہ شخص ہے جو کسی کی دنیا بہتر کرنے کی غرض سے اپنی آخرت برباد کرلیتا ہے۔  [ حلیۃ الأولیاء:5/325]

جو بیٹیوں کو محروم کرکے سارا کچھ بیٹوں کو دے جاتے ہیں، ان کی مثال یہی آخری شخص کی ہے۔

لہذا صورتِ مسؤلہ میں ان صاحب کو سمجھایا جائے کہ بیٹیوں کے ساتھ ظلم و ستم والا معاملہ نہ کرے، اگر زندگی میں ہی مال تقسیم کرنا ہے، تو پھر ہبہ کے اصول کے تحت بیٹوں، بیٹیوں سب کو برابر برابر حصہ دے، اور اگر وراثت کے اصولوں کے مطابق تقسیم کا خواہاں ہے، جو کہ بہتر ہے تو پھر اپنی زندگی میں یہ تقسیم بالکل نہ کرے، کیونکہ وراثت کی تقسیم وفات کے بعد ہوتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ