سوال (4235)
ایک دوست (عبداللّٰہ) کا سوال ہے کہ اس کے ہاں بچے کی پیدائش ہونے والی ہے، عبداللّٰہ کی خالہ بے اولاد ہے اور آنے والے بچے کو لے پالک بنانا چاہتی ہے۔ کیا عبداللّٰہ اپنی خالہ کو بچہ یا بچی لے پالک کے طور پر دے سکتا ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللّٰہ خیرا کثیرا
جواب
بہن، بھائی یا کسی اور کا بچہ گود لینا، یہ شرعی طور پر منع نہیں۔
البتہ شریعت نے کچھ حدود متعین کی ہیں جیسا کہ ان کی نسبت ان کے حقیقی والد کی طرف ہوگی ناکہ پرورش کرنے والوں کی طرف۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اُدۡعُوۡهُمۡ لِاٰبَآئِهِمۡ هُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ [الأحزاب : 5]
لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہ ہے۔
اگر وہ کم از کم 5 مرتبہ دودھ پلا دیں تو پھر رضاعت قائم ہوجائے گی لیکن اگر ایسا نہیں کرتے تو سابقہ اولاد سے پردہ کرنا شرعی طور پر فرض ہے۔
حتی کہ پرورش کرنے والی عورت کے شوہر سے بھی پردہ ہے۔
اس لیے اگر رضاعت قائم نہ ہوئی اور حقیقی بیٹے موجود ہوں تو شرعی طور پر کسی بھائی/بہن کی بیٹی لے کر پرورش کرنا یہ درست نہیں اس لیے کہ جب بچی بڑی ہوگی تو حقیقی بیٹوں سے اور خاوند سے پردہ کروانا ممکن نہیں ہوگا۔
اسی طرح اگر بچہ گود لیا ہے تو رضاعت قائم نہ ہونے کی صورت میں بلوغت کے بعد اس بچہ کی پرورش کرنے والی عورت بھی اس سے پردہ کرے گی۔
بعض لوگوں کا کہنا کہ بچہ کی پرورش کرنے والی عورت سے تو فتنہ کا خدشہ نہیں تو یہ سوچ غلط ہے۔
عزیز مصر کی بیوی اور یوسف علیہ السلام والا واقعہ سامنے رکھیں۔ [یوسف : 23]
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ