باطل فکر کا شرعی قتـل

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شریعت کا ایک عظیم باب اور اصلاح کا ایک بہترین طریقہ تنہائی میں اصلاح ہے، شریعت لوگوں کے عیوب افشاں اور ظاہر کرنے پر حریص نہیں، بلکہ انھیں چھپانے پر حریص ہے، اسی لیے شریعت نے غیبت کو حرام کیا ہے، اور زنا کے واقعات بیان کرنا ممنوع کر دیا ہے کہ اس سے جرائم پھیلتے ہیں، لیکن جب کسی کا زنا کا ارتکاب ثابت ہو جائے تو پھر شریعت سب کے سامنے اسے سزا دینا کا لالچ کرتی ہے، چار گواہ ملنے تک شریعت کے ہاں اس کی عزت ایسا مسئلہ تھا کہ کوئی اس پر زنا کا الزام لگائے تو حد قذف لگے، اور چار گواہ مل گئے تو اب شریعت کو لوگوں کو دکھا کر سزا دینے کا ایسا لالچ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ تک کہہ دیا کہ اس کو عذاب (سزا) دیتے ہوے اہل ایمان کا ایک گروہ موجود ہونا چاہیے
یہ شریعت کا جھول نہیں، بلکہ خوبصورتی ہے، اس لیے کہ جرم ثابت ہو جانے کے بعد جہاں اس کو اس کی سزا ملنی چاہیے وہیں معاشرے میں اس گناہ کا سد باب بھی ہونا چاہیے، لھذا سب کے سامنے سزا دے کر باقیوں کو گویا ڈرا سہما دیا جاتے ہے، تاکہ وہ ایسے گناہ سے باز رہیں، یوں شریعت عام فائدے کی خاطر ایک شخص کو پہنچنے والے ضرر کو پیچھے کر کے عام فائدے کو ترجیح دیتی ہے
یہ معاملہ تو شہوانی گناہوں کا ہے، دین کی آزادنہ اور من چاہی تشریح، دین میں تحریف، بدعات کی ایجاد اور اس جیسے عظیم جرائم جو زنا سے کہیں زیادہ بڑے جرم ہیں ان میں شریعت کا اسلوب بھی یہی ہے، شریعت کے ہاں باطل فکر، باطل فکر والے سے زیادہ بڑا مسئلہ ہے، باطل فکر کا قتل شریعت کا عین مقصود ہے، یوں کہہ لیجیے دین کی حرمت انسانی حرمت سے برتر ہے، ہیومن ازم سے متاثرین کے ہاں قاعدہ اس کے الٹ ہے، ان کے نزدیک انسانی حرمت، دین کی حرمت سے برتر ہے، لھذا دین کی حرمت پر انسانی حرمت کو ترجیح دی جاتی ہے، اس لیے ان کے ہاں ہمیشہ یہی کہنے کو ملتا ہے کہ “مخالف کا احترام کرو” “اسے بھی حق ہے” “اس کی بھی ایک رائے ہے” “آپ فکر کو غلط کہیں انسان کو نہیں” “غلط افکار ہوتے ہیں، انسان نہیں” اور اس جیسے جملے ان لوگوں کے زبان زد ہوتے ہیں، لیکن شریعت کے ہاں ایسا نہیں، شریعت کے ہاں دین کی حرمت انسانی حرمت سے برتر ہے، اسی لیے شریعت نے بدعتیوں کی غیبت کو حلال کیا ہے، حدیث کی حفاظت کے لیے رواۃ حدیث پر جرح کو لازم کیا ہے، باطل فکر کی وجہ سے باطل فکر والے پر مخصوص صورتوں میں علانیہ تنقید کو حلال کیا ہے، لیکن چونکہ انسان کی بھی حرمت ہے، لھذا کسی شخص سے دین میں غلطی ہو جانے پر شریعت پہلے تو اس انداز سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ باطل بند کمرے میں ہی دفن ہو جائے، شریعت کے پیش نظر اس میں اور بھی بہت سی حکمتیں ہوتی ہیں، لیکن باطل جب بند کمرے سے نکل جائے تو ایسا کا معاملہ پہلے جیسا نہیں رہتا، اب شریعت کی نظر میں دو مسئلے ہوتے ہیں، ایک یہ کہ باطل فکر والے کی اصلاح ہو جائے، تاکہ اس کی آخرت بچ جائے، اس کے لیے شریعت کہتی ہے وہ اسلوب اختیار کرو جو اس کے کیے فتنے کا باعث نہ بنے، اور اسے حق کے قریب لائے اور باطل سے ہٹا دے، لھذا حکمت کے مطابق اس سے نرمی سے، کبھی تنہائی میں، کبھی تنہائی میں ترغیب و ترہیب سے، کبھی تالیف قلب سے اس کی اصلاح کی جائے، دوسرا مسئلہ شریعت کی نظر میں اس باطل فکر کے پھیل جانے کا ہوتا ہے، باطل فکر والا ابر اپنی اصلاح کر کے خود ہی اپنے باطل کا رد کر دے تو یہ سب سے اچھا ہوتا ہے، لیکن اگر یہ نہ ہو سکے یا باطل اتن پھیل چکا ہو، یا اس کا ارتکاب کرنے والے بہت زیادہ ہوں تو پھر شریعت کہتی ہے اب علانیہ رد کرو، شریعت جانتی ہے کہ اس سے باطل والا مطعون ہوگا، لیکن اب شریعت کے ہاں دین کی حرمت شخصی حرمت پر کئی گنا مقدم ہوتی ہے، لھذا شریعت دین کی حرمت کی حفاظت کو ترجیح دیتی ہے، اگر ایسا ہو کہ باطل والا اپنے باطل سے رجوع کر لے، لیکن معاشرے میں وہ باطل موجود ہو تو اب کیا کیا جائے ؟ شریعت کہتی ہے اب اپنے اس بھائی کے ساتھ خیر میں تعاون کرو، لھذا اس کے رجوع کو پھیلایا جائے، اس کی تحسین کی جائے، لیکن اس کے رجوع سے لوگوں میں پھیلا باطل اور شبہات کا ازالہ صرف اس کے رجوع سے نہیں ہو سکتا، خاص کر جب کہ رجوع کرنے والا اپنے باطل کا علمی رد کرنا اور اپنی غلطیاں سمجھنے اور بتانے پر قادر بھی نہ ہو، اب شریعت باطل سے رجوع کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ ساتھ باطل کی تردید کی ترغیب دیتی ہے، لھذا اس کے رجوع کی وجہ سے باطل کا رد ترک نہیں کیا جاتا، بلکہ معاشرے میں کھل کر اس باطل کی تردید کی جاتی ہے، کیوں کہ باطل فکر کا قـتل و ازالہ شریعت کا عین مقضود ہے، رجوع کرنے والا اگر اللہ سے مخلص ہو تو وہ اس تنقید کا خود سب سے بڑا حامی بن جاتا ہے، کیوں کہ یہ اس کی ندامت اور دن سے اخلاص کا تقاضا ہوتا ہے کہ جیسے میں نے باطل پھیلا تو اب اسی قوت بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قوت سے باطل کا ابطال کروں

موھب الرحیم

یہ بھی پڑھیں: قرآن مجید کی بے اَدبی سے حفاظت