اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ باطل افکار و خیالات سے واقف رہیں تاکہ وہ ان کا بہ دلائل بطلان واضح کر سکیں ۔ عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ باطل بظاہر منطق اور تعقل کی راہ سے آگے بڑھتا ہے اور اس کی پیش کش بہت دلکش ہوتی ہے ۔ سادہ لوح دھوکہ کھا جاتے ہیں اور یہ سمجھ نہیں پاتے کہ اس دلکشی کے پیچھے کیسی خرابی چھپی ہوئی ہے ۔ اہل علم جب اس خرابی کو سامنے لاتے ہیں تب کھلتا ہے کہ اس بظاہر حسن میں کیسی بد صورتی پنہاں ہے ۔
اس سلسلے میں سب سے روشن مثال شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ وہ نہ صرف یہ کہ ان نظریات و افکار سے واقفیت رکھتے ہیں بلکہ خود ان کے حاملین سے زیادہ بڑھ کر ان پر ان کی گرفت ہوتی ہے اور جب دلائل کے انبار سے ان کا بطلان واضح کرتے ہیں تو ایک منصف مزاج انسان کے پاس ماننے کے سوا کوئی راہ نہیں رہ جاتی ۔
ہمارے بہت سے علماء دوسرے ادیان و فرق کے علماء سے بڑھ کر ان کے مراجع و مصادر سے واقفیت رکھتے تھے اور جب ان پر رد کرتے تھے تو علم بولتا ہوا نظر آتا تھا ۔ یہ بات معلوم ہے کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ نے فرق باطلہ کے رد میں لاجواب کتابیں لکھی ہیں لیکن یہ بات بھی جاننے کی ہے کہ وہ ان تمام فرق باطلہ کی اصلی کتابوں کا ایسا ذخیرہ رکھتے تھے جس کی مثال کم کم ہی ملے گی ۔ وہ انہیں حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے جتن کرتے تھے اور یوں جب دلائل سے حق واضح کرتے تھے تو دل قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا ۔
آج بھی بہت سے منحرف افکار کے لوگ اپنے باطل نظریات کے فروغ میں کوشاں ہیں ، ان کی زبان اچھی ہے ، پیش کش جاذب ہے اور رویہ ایسا ہے کہ سادہ لوح لوگ ان کی شیریں بیانی اور بظاہر منطقی اسلوب و استدلال سے دھوکہ کھا رہے ہیں ۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے افکار و نظریات کا باضابطہ جائزہ لیں اور ٹھوس علمی اسلوب میں رد کریں ۔
ایک بات اور بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ان باطل پرستوں کے پاس اگر سوشل میڈیا جیسے ذرائع ہیں اور ان ذرائع سے وہ گمراہیاں پھیلا رہے ہیں تو علماء کو بھی ان ذرائع کا مثبت استعمال ضرور کرنا چاہیے ۔