سوال

میرے والد صاحب نے 1992 میں اپنی کمائی سے گھر لیا۔ہم بھائیوں نے بہنوں اور والدین کی رضامندی سےاس مکان کو2017میں27لاکھ30ہزار میں فروخت کیا۔اس وقت ہماری بہنوں نے اس مکان کی قیمت میں سے جو شرعی حصے تھے وہ ہمیں معاف کر دیئے۔اسکے بعد 2017ہی میں ہمیں والدہ کی وراثت ملی۔جوکہ 11لاکھ روپے تھے۔اس وقت بھی بہنوں نے ہمیں اپنا حصہ معاف کر دیا۔گھر کی رقم اور والدہ کے وراثتی حصے کا ٹوٹل 38لاکھ 30ہزار روپے بنتے تھے۔لیکن اس میں مزید پیسے ڈال کے65لاکھ کا پلاٹ لیاتاکہ ہم بھائی مل کر ذاتی کمائی سے اپنا گھر بنا سکیں۔
اس کے بعد 2018 میں والد کی وراثتی زمین کا حصہ بیچا جس کی 30 لاکھ قیمت وصول ہوئی۔اس میں بھی بہنوں نے خوشی اور رضامندی سے اپنا حصہ ہمیں معاف کر دیا۔پرانا گھر والدہ کا وراثتی حصہ اور والد کی وراثتی جگہ ان تمام کی کل مالیت کا ٹوٹل 61 لاکھ 30 ہزار روپے بنتے ہیں۔
اسی دوران ہم نے جو پلاٹ 65 لاکھ میں خریدا تھا، اس پلاٹ پر ہم بھائیوں نے اپنا گھر بنا لیا، اور اب وہ گھر مکمل ہو چکا ہے، ہم نے اس میں رہائش اختیار کرلی ہے۔اس دوران بہنوں نے کسی قسم کا کوئی دعوی یامطالبہ نہیں کیا ،اور یہ گھر بھی ہم دونوں بھائیوں کے نام ہے۔
لیکن اب گھریلو لڑائی جھگڑے اور چھوٹی چھوٹی ناراضگیوں کی وجہ سے بہنیں اپنا حصہ مانگتی ہیں جو کہ انہوں نے صلح صفائی سے معاف کر دیا تھا۔برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں بتایا جائے۔
بہنوں نے ہمیں معاف کر دیا تھا اب دینا چاہیے یا نہیں؟اگر دینا چاہیے تو اس ٹوٹل رقم میں بہنوں کا کتنا حصہ بنتا ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے:

{وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا} ‎[سورةالنساء:7]

’ جو مال ماں باپ اور عزیزواقارب چھوڑ کر جائیں، خواه وه مال کم ہو یا زیاده ،اس میں عورتوں کا بھی حصہ مقرر کیا ہوا ہے‘۔
لہذا والدین کی وراثت کا حقدار بیٹے اور بیٹیاں دونوں ہوتے ہیں۔ جب وراثت تقسیم ہو، تو جس طرح بیٹوں اور بھائیوں کو ان کا حق دیا جاتا ہے، بیٹیوں اور بہنوں کو بھی دیناچاہیے۔ اگر وہ اپنا حق لے کر واپس کردیں، تو یہ ان کی مرضی ہے۔
 لیکن ہمارے ہاں ایسے ہوتا نہیں ہے، ہم خواتین کو ان کا حق نہیں دیتے، اور کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں معاف کردیا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ وہ شرم و حیا میں بھی اپنا حصہ نہیں مانگتیں، بعض دفعہ ان پر دباؤ ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے حصہ لے لیا، تو ان کا میکے سے تعلق ختم ہوجائے گا، وغیرہ۔ لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ وراثت تقسیم کرتے ہوئے، بیٹیوں، بہنوں کو ان کا حق دینا ضروری ہے۔اگر وہ اپنا حق لے کر، واپس کردیں، اپنے بھائیوں کو، یا والدین کو ہدیہ کردیں، تو یہ ان کی مرضی ہے۔ ایسی صورت میں بطور تحفہ اور ہدیہ کے یہ حق رکھا جاسکتا ہے۔ اور خواتین کو یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، ان کے پاس وراثت لینے اور واپس کرنے کا مکمل اختیار ہے۔
 اگر انہوں نے اپنا حصہ واپس کردیا ہے، یا اپنے بھائیوں کو بطور ہدیہ دے دیا ہے، تو پھر بعد میں اسے واپس مانگنا جائز نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

«العَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالعَائِدِ فِي قَيْئِهِ»[صحيح البخاري :2621]

’تحفہ دے کرواپس لینے والا، قے کرکے چاٹنے والے کی طرح ہے‘۔ایک اور روایت میں الفاظ ہیں:

«العَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالكَلْبِ يَقِيءُ ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ»[صحيح البخاري :2589]

’تحفہ دے کر واپس لینے والا، کتے کی طرح ہے، جو قے کر تا ہے، پھر اسے چاٹتا ہے‘۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے مسئلہ اخذ کیا ہے کہ ’کسی کے لیے حلال اور جائز نہیں کہ وہ تحفہ یا صدقہ دے کر، اسے واپس لے‘۔ [صحيح البخاري :3/164]
جس طرح میکے والے خواتین کا حصہ دینے میں پس و پیش کریں تو درست نہیں، اسی طرح اگر خواتین اپنا حصہ خوشدلی اور رضامندی سے واپس کردیں، یا معاف کردیں، تو ان کے سسرال والوں کو انہیں میکے سے وراثت لینے کے لیے مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایسی صورت میں وہ انہیں ایک غلط اور حرام کام پر مجبور کر رہے ہوتےہیں۔
معاشرے میں دونوں طرف خرابیاں موجود ہیں، صورتِ مسؤلہ میں ہمارے لیے واضح نہیں ہوسکا، کہ اب یہاں غلطی کس کی ہے؟ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر بھائیوں نےوالدین کی وراثت دینے میں پس و پیش کی ہے، تو وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے، بہنوں کو ان کا حق دیں۔ لیکن اگر بہنوں نے اپنا حصہ خوشدلی و رضامندی سے بھائیوں کو ہدیہ کردیا تھا، تو پھر اب انہیں خود یا کسی کے اکسانے پر دوبارہ مانگنا جائز نہیں ہے۔
 والد کی وفات کے وقت جتنی جائیداد تھی، اسی طرح والدہ کی وفات کے وقت اگر ان کی کوئی جائیداد تھی، تو وہ ان کی اولاد میں تقسیم ہوگی۔ بیٹی کو ایک حصہ، جبکہ بیٹے کو دو حصے۔ جیساکہ [سورة النساء :11] میں صراحت ہے۔

 

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ