سوال

بیویوں میں عدل کا بنیادی ضابطہ کیا ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اگر کسی کی ایک سے زائد بیویاں ہیں، تو ان سب کے درمیان عدل و انصاف کرنا بہت ضروری ہے، بصورتِ دیگر کوتاہی پر سخت وعید ہے ۔جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:

“مَنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ فَمَالَ إِلَى إِحْدَاهُمَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ مَائِلٌ”. [سنن ابي داود:2134]

’’جس کی دوبیویاں ہوں اور اس نے دونوں کے درمیان عدل و انصاف نہ کیا، تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا، کہ اس کا آدھا حصہ بےکار ہوگا‘‘۔
اسی طرح قرآنِ کریم میں بیویوں کے درمیان عدل کو بیان کیا گیا ہے ،ارشادِ باری تعالی ہے:

“فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً”.[النساء:3]

’ اگرتم بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرسکتے تو ایک ہی کافی ہے‘۔
یعنی یہاں تعددِ ازواج کو عدل سے مشروط کیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا :

“وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَاءِ”. [سورة النساء :129]

’ اور تم بیویوں کے درمیان عدل نہیں کر سکتے ‘۔
گویا استطاعت رکھنے نہ رکھنے کے اعتبار سے ’عدل‘ کی دو قسمیں ہیں:
1۔ دلی رجحان یا قلبی تعلق میں عدل: یہ بات ممکن نہیں ہے کہ انسان کا قلبی رجحان تمام بیویوں کےساتھ ایک طرح کا ہو۔جیسا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں فرمایا تھا:

“اللَّهُمَّ هَذَا قَسْمِي، فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي، فِيمَا تَمْلِكُ، وَلَا أَمْلِكُ”. [سنن ابي داود:2134]

’کہ اے اللہ جس کا میں مالک ہوں اس میں تو عدل کرتا ہوں، لیکن جس کا میں نہیں، بلکہ تو مالک ہے، اس میں مواخذہ نہ کرنا‘۔
اس سے وہ عدل مراد ہے جو قلبی رجحان کی بنا پر ہوتا ہے وہ ہر بیوی کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے۔ جیساکہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کو بیان کرتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے۔
2: حقوق اور سہولیات میں عدل: یعنی جس کی جتنی ضرورت ہے، اس کو اسی حساب رہائش، نان نفقہ اور اخراجات وغیرہ دیے جائیں۔ تعددِ ازواج کو اسی عدل کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے ۔
اور عدل سے مراد’مساوات‘ یعنی ’برابری‘ بھی نہیں ہے کہ ایک کو اگر پچاس ہزار روپے دیتا ہے، تو دوسری کو بھی پچاس ہزار دے۔ بلکہ جس کی جتنی ضروریات ہیں وہ اس کو مہیا کی جائیں۔
اگر کسی کے بچے زیادہ ہیں تو وہاں پیسوں کی زیادہ ضرورت ہے، تو عدل یہ ہے کہ اس کو اخراجات بھی اس حساب سے زیادہ دیے جائیں، لیکن اگر کسی بیوی کا ایک بچہ ہے یابچے نہیں ہیں تو ضروری نہیں ہے، کہ اس کو بھی اتنے ہی پیسے دے جو بچوں والی کو دیتا ہے۔ [ دیکھیں: المغني لابن قدامة: 7 / 232 ]
بہرحال مقصد ہے تمام ضروریات پوری کرنا ۔جس کی جتنی ضروریات ہیں اس کو پورا کریں، یہ عدل ہے۔ مساوات اور برابری ضروری نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ