بت شکن اٹھ گئے باقی جو ہیں بت گر ہیں

حکومتی راہداریوں میں پانی کی طرح بہتا پیسہ ، ڈالروں کی برستی برسات ، لاکھوں کروڑوں کے مفت کے تحائف، مختلف گرانٹس سے ملنے والے کک بیکس، ٹھیکوں میں دس فیصد بیس فیصد کے مفت کے حصے، تھانے کچہری میں سفارشوں پر نذرانے ، کچھ اپنی اور خاندان کی محنت اور دوڑ دھوپ سے محکمہ تعلیم اور پٹوار خانے سے اوپر کی کمائی ، واپڈا سے مفت کی بجلی اور دیگر ذرائع سے آمدن، پولیس کا پروٹوکول ، سائرن بجاتی ہٹو بچو گاڑیوں کا شور مچاتا سکواڈ، ووٹروں کو رام کرنے اور ان کے جائز ناجائز کام کروانے کے لیے اثرورسوخ ، مخالفین پر مقدمات بنوانے اور انھیں زیرعتاب رکھنے کی ابلیسی جبلت کے مناظر اور کامیابی اور کامرانی کی معرکہ آرائیوں کا جب مذہبی قائدین نظارہ کرتے اور جائزہ لیتے ہیں تو ان کی بھی حرص ولالچ کی رال ٹپکتی، روپے پیسے کو حاصل کرنے اور بہت بااثر ہونے کی آرزوئیں انگڑائی لیتں , اندر کا شیطان منہ زور خواہشات کی لو تیز کرتا، ناموری اور خود ستائشی کا عفریت بے قابو ہو جاتا اور مذہبی جماعت کی امارت کی سرحدیں نیل تا کاشغر لے جانے کا جنون بپھرنے لگتا ہے۔
اب منہ زور خواہشات کا تلاطم خیز سمندر ہے، آرزوؤں کا لق و دق صحرا، بادشاہ سلامت بننے کی شتر بے مہار تمنائیں ، طبلچیوں کے امیر محترم کی شان اقدس میں پڑھے جانے والے قصیدے، خوشامدیوں کی دن رات کی فریبی تعریفیں، خود غرض لوگوں کی ملمع سازی قائد محترم کو امام مہدی ، اقتدار کا اصل مستحق، اسلام کا مسیحا ، کفر کی موت، امت کا اصلی ہیرو اور وطن کا حقیقی پاسبان بنا کر پیش کرتی ہے۔
مسجد مدرسے کی ٹوٹی صفوں کا یہ بوریا نشین ، روکھی سوکھی کھا کر تلخ زندگی گزارنے والا یہ درویش جب جماعت کی امارت پر فائز ہو کر مہنگے ایرانی قالینوں سے آراستہ پر تعیش مکانوں اور مہنگے دفاتر میں جلوہ افروز ہوتا، سائیکل ، موٹر سائیکل سوار سفید پوش کو جب کروڑوں کی گاڑیوں سے نوازا جاتا ، مسجد مدرسے کی انتظامیہ کی جھڑکیوں، گھوریوں کا ستایا قائد حریت جب اپنے حفاظت پر مامور جتھے دیکھتا، جماعتی فنڈ، عطیات اور نذرانوں سے حاصل مال کا ڈھیر ، روپے کی ریل پیل اور دولت کی فراوانی کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے، جب دولت کی گنگا بہتی , اطاعت ، فرماں برداری کی پرکیف ہوائیں مسحور کرتیں، غریب متوسط طبقے سے وابستہ امیر ونائبین کی مرادیں پوری ہونے لگتیں، لاکھوں کروڑوں کے بلوں پر دستخط کرنے اور حکمنامے جاری کرنے سے دلوں کو فرحت ملتے، جب دیہاتی ملنگنیوں کی جگہ مریدین کی طرف سے نوازی گئی یا مفادات کی بھینٹ چڑھی گوری چٹی، کم عمر ، شہروں کی پروردہ حوران دنیا حرم کی رونقیں بڑھاتیں ، مرغن غذاؤں سے بڑھاپے میں جوانی کا گماں ہوتا اور کارکنان پر راج کرنے کے بعد ملک وملت پر حکمرانی کے جذبے انگڑائی لینے لگتےہیں، بھاری مشاہرے، مفت خوراک، مفت رہائش ، فری بجلی اور گیس، سردی میں سردی کا توڑ کرتے دن رات چلتے ہیٹر یا انورٹر ، گرمیوں میں یخ ٹھنڈک کا احساس دلاتے اے سی، جماعتی پٹرول سے فراٹے بھرتی سبک رفتار لینڈ کروزریں ، بیوی بچوں کی پوری ہوتی تمام خواہشات ، مہمانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والی میزبانیاں اور وسیع ترین دسترخوانوں پر باہمی تفاخر اور داد طلبی کے آوارہ شوق۔
یہ دنیاوی آسائشیں ، رنگینیاں ، سرداریاں، متکبرانہ ادائیں اور پر لطف نظارے مذہبی قائدین کی آنکھوں کو خیرہ کرتے، دلوں کو لبھاتے، سینے ٹھارتے، تھانے ، کچہری, پٹوار خانے میں حیثیت مانی جاتی ہے تو مذہب کا رنگ دھلنے لگتا، ایمان ڈولنے لگتے ، امانت و دیانت کے پیمانے لرزنے لگتے ، تقوی ، للہیت ، خشیت الٰہی ہاتھ جوڑے اڑن چھو ہو جاتے، عقائد ونظریات کی بنیادیں ڈھے جاتیں، توحید سے چڑ، سنت سے ضد اور شریعت کے احکام چھیڑ بن جاتے ہیں۔ اہل توحید ، علمائے حق، خالص کتاب وسنت کے علمبرداروں کا شکنجہ پورے زور سے کس دیا جاتا اور ماحول ایسا بنایا جاتا ہے کہ تازہ تراشےدین اکبری پر ایمان لاؤ یا کوچ کر جاؤ ۔ اہل باطل ، بدعتی ، بے دین، دین بے زار لوگوں سے قربتیں بڑھنے لگتیں، کارکنان کی تربیت ، اصلاح ، دین داری اور اخروی کامیابی کی فکر عنقا ہو جاتی اور پیسے جمع کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈ کر مال جمع کرنے کے ہزار جتن کیے جاتے ہیں۔ عزت، قدر، عظمت اور رفعت کے میڈلز سے کماؤ پوتوں کو نوازا جاتا ، تقوی ، للہیت ، علم ، دینداری بے وقعت قرار پاتی ہے۔
جماعتی مفتیان ، جماعتی عدالتیں اور جماعتی نظریات ، احکام پر مشتمل ایک من پسند شریعت کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے اور کارکنان میں مخالف جماعتوں کے خلاف زہر گھول کر اپنی باتیں سنا کر انھیں فدوی بنا کر راج کیا جاتا ہے۔
امیر کی عظمت، رفعت، اطاعت ، بصیرت کو سلام ، شریعت فہمی کامینارہ نور ایستادہ کر کے ، بلند نگاہی، ظل الٰہی کے درجے پر فائز کر کے مقلدین کی فوج ظفر موج اور جاں نثار فدائیوں کی ایسی کھیپ تیار کی جاتی ہے جن کے نزدیک جماعتی امیر کی ہر بات شریعت کا درجہ رکھتی، جس کی ہر ادا دین، جس کا کہا سند، جس کی سوچ فقہ، حکم فرضیت اور نہی حرمت کا حکم رکھتی ہے۔ توحید وہ مقبول ہے جسے امیر کی زبانی سنا جائے، تفسیر وہ معتبر جو قائد نے بیان کی ہے، المختصر امیر دودھ کا دھلا ، پاک طینت ، پاک سیرت ، مقام اجتہاد پر فائز شریعت سازی کا کامل حق رکھتی محترم ہستی ہے۔
اس مقام عالی شان پر فائز امیر المومنین کو گروہی مفتیان ، جماعتی علماء ، فقیہانِ جماعت اور کارکنان کی طرف سے مکمل آزادی ہوتی ہے کہ وہ شریعت کو بازیچہ اطفال بنا دے، دیوبند ، بریلوی یہاں تک کہ شیعہ مکتب فکر کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر توحید وسنت بیان کرنے اور شرک وبدعت کے رد پر پابندی لگا دے، چاہے تو شرک وکفر پر مبنی جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کر دے، دل کرے تو تصویر سازی کی حرمت کے قوانین بدل کر اسے مستحب عمل بنا دے، مرضی ہو تو سود، مالی بد عنوانی ، جھوٹ ، دھوکے اور جعل سازی کے پیمانے بدل ڈالے۔ امیر کے نائبین ، مشیران، ممبران سمیت کارکنان کو اس سے کوئی غرض نہیں ۔
علامہ اقبال اسی سوچ کی ترجمانی اپنی مشہورِ زمانہ نظم آزادی میں کرتے ہیں:
آزادی
ہے کس کی یہ جُرأت کہ مسلمان کو ٹوکے
حُریّتِ افکار کی نعمت ہے خدا داد
چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدۂ پارس
چاہے تو کرے اس میں فرنگی صَنم آباد
قُرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر
چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد
ہے مملکتِ ہند میں اک طُرفہ تماشا
اسلام ہے محبوس، مسلمان ہے آزاد!
اور اپنی دوسری نظم ” اجتہاد” میں ان مردہ ضمیروں کو یوں جھنجوڑتے ہیں:
ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذّتِ کردار، نہ افکارِ عمیق
حلقۂ شوق میں وہ جُرأتِ اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق!
خود بدلتے نہیں، قُرآں کو بدل دیتے ہیں
ہُوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سِکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق!
رب کا قرآن ان گھاٹے کے سوداگروں کو یوں آئینہ دکھاتا ہے:
وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ الَّذِىۡۤ اٰتَيۡنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنۡهَا فَاَتۡبَعَهُ الشَّيۡطٰنُ فَكَانَ مِنَ الۡغٰوِيۡنَ‏ ۞
وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰهُ بِهَا وَلٰـكِنَّهٗۤ اَخۡلَدَ اِلَى الۡاَرۡضِ وَاتَّبَعَ هَوٰٮهُ‌ ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الۡـكَلۡبِ‌ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ اَوۡ تَتۡرُكۡهُ يَلۡهَث ‌ؕ ذٰ لِكَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا‌ ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُوۡنَ ۞
سَآءَ مَثَلَاْ ۨالۡقَوۡمُ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَاَنۡفُسَهُمۡ كَانُوۡا يَظۡلِمُوۡنَ ۞
اور انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنا جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا، پھر شیطان نے اسے پیچھے لگا لیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے بلند کر دیتے، مگر وہ زمین کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا، تو اس کی مثال کتے کی مثال کی طرح ہے کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے ہانپتا ہے، یا اسے چھوڑ دے تو بھی زبان نکالے ہانپتا ہے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ سو تو یہ بیان سنا دے، تاکہ وہ غور و فکر کریں۔برے ہیں وہ لوگ مثال کی رو سے جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔( الاعراف: 175 تا 177 )
وما علینا الاالبلاغ المبین!

فاروق رفیع

یہ بھی پڑھیں:زوال علم کے اسباب اور ان کا سدباب