اللہ تعالٰی کی اولادہونےکاعقیدہ رکھنااور کرسمس تقاریب میں شرکت کرنا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیسا ہے۔

25 دسمبر کا دن عیسائیوں کی عید کا دن ہے جسے عیسائی لوگ کرسمس ڈے کے نام سے پکارتے ہیں۔عیسائی عقیدہ کے مطابق 25 دسمبر کو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور ان کے عقیدہ کے مطابق (نعوذ باللہ من ذلک) جناب عیسی علیہ السلام، اللہ کے بیٹے ہیں۔ گویا ان عیسائیوں کے نزدیک 25 دسمبر کو اللہ کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ العیاذ باللہ۔

جبکہ یہ عقیدہ اسلامی تعلیمات کے مطابق انتہائی غلط عقیدہ ہے کسی کو اللہ تعالٰی کا بیٹا کہنے سے کفر و شرک لازم آتا ہے اور یہ اللہ تعالٰی کو ناراض کرنے کے لیے سخت ترین کلمہ ہے۔

لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ بہت سے مسلمان عوام و حکام بھی عیسائیوں کی اس خوشی میں فرحاں وشاداں نظر آتے ہیں بلکہ باقاعدہ ان کے ساتھ ان کی کرسمس تقاریب میں شرکت کرتے ہیں۔

اسلام دیگر مذاہب کو ان کی عبادات سے جبرا روکتا تو نہیں ہے لیکن اسلامیان کے لیے کسی طور بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اسلام مخالف نظریات اور عقائد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے پروگراموں میں شرکت کریں۔

آج ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ عقیدہ رکھنا کیسا ہے کہ( اللہ تعالٰی نے بیٹا جنم دیا )
اور ایسی شرکیہ مجالس، تقاریب اور پروگرامز میں شرکت کرنا کیسا ہے۔

1⃣ اسلام کے مطابق اللہ تعالٰی کی کوئی اولاد نہیں ہے

اسلام کا واضح حکم ہے۔

(قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ * اللَّهُ الصَّمَدُ * لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ * وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ)

کہہ دیجئے اللَّهُ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی وہ جنا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔
اس سورۃ میں نصرانیوں کا رد ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں،
یہودیوں کا رد ہے جو عزیر(علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں،
مشرکین عرب کا رد ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانتے ہیں،
فلاسفہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ عقول عشرہ اللہ سے نکلی ہیں اور اب کائنات کا نظام وہ چلا رہی ہیں،
ہندوؤں کا رد ہے جو کروڑوں کی تعداد میں مخلوق کو خدا مانتے ہیں،
اور ان مسلمان کہلانے والوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ائمہ اہل بیت اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور سے پیدا ہوئے ہیں۔

2⃣ کسی کو اللہ کا بیٹا کہنا اتنی خوفناک بات ہے کہ قریب ہے اس کی وجہ سے زمین و آسمان پھٹتءطنور جائیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:

(وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا * لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا * تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا * أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا * وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا)

اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا لی ہے۔
بلاشبہ یقینا تم ایک بہت بھاری بات کو آئے ہو۔
آسمان قریب ہیں کہ اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں
کہ انھوں نے رحمان کے لیے کسی اولاد کا دعویٰ کیا
حالانکہ رحمان کے لائق نہیں کہ وہ کوئی اولاد بنائے۔
(سورۃ مریم 88 تا 92)

دیکھئیے کس قدر خوفناک عقیدہ ہے کہ اس ایک کلمہ کی وجہ سے دنیا کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔

دوسری آیت میں فرمایا:

كَبُرَتۡ كَلِمَةً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ‌ؕ اِنۡ يَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا كَذِبًا‏

بولنے میں بڑی ہے، جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، وہ سراسر جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔
الکہف 5
مگر یہ تو اللہ تعالٰی کا صبر، حوصلہ اور انعام ہے اس کے باوجود اللہ تعالٰی زمین و آسمان کو قائم رکھے ہوئے ہیں

حدیث میں آتا ہے:

ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:

( لَیْسَ أَحَدٌ أَصْبَرَ عَلٰی أَذًی سَمِعَہٗ مِنَ اللّٰہِ إِنَّھُمْ لَیَدْعُوْنَ لَہٗ وَلَدًا وَ إِنَّہٗ لَیُعَافِیْھِمْ وَیَرْزُقُھُمْ )
[ بخاری، الأدب، باب الصبر في الأذی : ٦٠٩٩ ]

” اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ بات پر صبر کرنے والا، جسے وہ سن رہا ہو اور کوئی نہیں۔ لوگ اس کے لیے اولاد بتاتے ہیں اور وہ (اس کے باوجود) انھیں عافیت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے۔ “

3⃣ عیسائیوں کے اس عقیدے کی وجہ سے اللہ تعالٰی مسلمانوں کو عیسائیوں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیتے ہیں:

(قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ *
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ)

لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔

اور یہودیوں نے کہا عزیر، اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح، اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ ان کا اپنے مونہوں کا کہنا ہے، وہ ان لوگوں کی بات کی مشابہت کر رہے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا۔ اللہ انھیں مارے، کدھر بہکائے جا رہے ہیں۔ توبہ: (29تا30)

اس آئت میں اہل کتاب سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے اور اس کی چار وجہیں بیان فرمائی ہیں:

1 ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں ہے۔ رہا ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ تو وہ درست نہیں، کیونکہ وہ اس کے مطابق نہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام رسولوں نے بتایا، بلکہ وہ اللہ پر ایمان کے بجائے اللہ تعالیٰ کی توہین والا عقیدہ رکھتے ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمایا:

(وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ) [ التوبۃ : ٣٠ ]

اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ “ یعنی یہود و نصاریٰ اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر اسے محتاج ثابت کر رہے ہیں اور اس کی وحدانیت کا انکار کر رہے ہیں۔

2 یوم آخرت پر ان کا ایمان بھی کالعدم ہے۔

3 وہ ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں۔

4 وہ دین حق قبول نہیں کرتے، حالانکہ اسے قبول کرنے کے لیے ان کے انبیاء کے صریح احکام موجود ہیں اور اسلام کے حق ہونے کے واضح دلائل ان کے سامنے ہیں۔
( ماخوذ از تفسیر القرآن الکریم از شیخنا المکرم حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالٰی )

4⃣ کسی کو اللہ کا بیٹا کہنا اللہ تعالٰی کو گالی دینے کے مترادف ہے۔حدیث میں آتا ہے۔
ابوہریرہ (رض) عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ وَشَتَمَنِي وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ لَنْ يُعِيدَنِي كَمَا بَدَأَنِي وَلَيْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِهِ وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا وَأَنَا الْأَحَدُ الصَّمَدُ لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لِي كُفْئًا أَحَدٌ

” ابن آدم نے مجھے جھٹلا دیا حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح اس نے مجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے دوبارہ نہیں بنائے گا۔ حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا مجھے دوبارہ بنانے سے آسان نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ نے اولاد بنئای ہے، حالانکہ میں احد ہوں، صمد ہوں۔ میں نے نہ کسی کو جنا، نہ کسی نے مجھے جنا اور نہ ہی کوئی میرے برابر کا ہے۔ “
(بخاری 4690، التفسیر، سورة (قل ھو اللہ احد)

یہ بھی پڑھیں: نئے سال کا آغاز ایک جائزہ

کیا ہمارے سامنے کوئی شخص اللہ تعالٰی کو گالی دے تو ہم اسے اس عمل پر مبارکباد دیں گے۔
اگر نہیں تو پھر سوچیں کہ کرسمس ڈے پر عیسائیوں کو مبارکباد پیش کرنے یا میری کرسمس کہنے کا کیا معنی ہے۔ ہم مسلمان ہیں نا تو ہمیں میری کرسمس کہنا ہے اور نہ ہی مبارکباد دینی ہے۔

5⃣ عیسی علیہ السلام کے متعلق غلو کی مذمت اور عقیدہ تثلیث کی نفی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡ وَلَا تَقُوۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الۡحَـقَّ‌ ؕ اِنَّمَا الۡمَسِيۡحُ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ رَسُوۡلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ‌ ۚ اَ لۡقٰٮهَاۤ اِلٰى مَرۡيَمَ وَرُوۡحٌ مِّنۡهُ‌ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ‌ ‌ۚ وَلَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَةٌ‌ ؕ اِنْتَهُوۡا خَيۡرًا لَّـكُمۡ‌ ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ‌ ؕ سُبۡحٰنَهٗۤ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗ وَلَدٌ‌ ۘ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا

اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حد سے نہ گزرو اور اللہ پر مت کہو مگر حق۔ نہیں ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم مگر اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ، جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک روح ہے۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور مت کہو کہ تین ہیں، باز آجاؤ، تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ اللہ تو صرف ایک ہی معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بطور وکیل کافی ہے۔
(نساء 171)

” غلو “ راہ اعتدال کے چھوڑ دینے کا نام ہے اور یہ افراط و تفریط (زیادتی اور کمی) دونوں صورتوں میں ہے۔ ایک طرف نصاریٰ نے مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں افراط سے کام لے کر ان کو اللہ کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، تو دوسری طرف یہود نے مسیح (علیہ السلام) سے متعلق یہاں تک تفریط برتی کہ ان کی رسالت کا بھی انکار کردیا، قرآن نے بتایا کہ یہ دونوں فریق غلو کر رہے ہیں۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ تو اللہ کے بیٹے ہیں کہ ان کو معبود بنا لیا جائے اور نہ جھوٹے نبی ہیں، بلکہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غلو سے سختی سے منع فرمایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:

( لاَ تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی ابْنَ مَرْیَمَ ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ )

[ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ: ( واذکر فی الکتاب مریم ) : ٣٤٤٥ ]
” مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا۔ میں تو اس کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو۔ جاری ہے۔

کرسمس ڈے اور اسلامی تعلیمات(2)

عمران محمدی