انسان کی طبیعت ہے کہ وہ معمولات کی یکسانیت سے کبھی کبھی گھبرا اٹھتا ہے اور ایسےایام کی ضرورت محسوس کرتا ہے جس میں وہ روز مرہ کی مصروفیات سے ہٹ کر کُھلے ذہن کے ساتھ اپنا کچھ وقت گزار سکے، اسی لیے ہر قوم وملت میں جشنِ مسرت منانے کے لیے کچھ ایام مقرر ہوتے ہیں۔۔
جنہیں عرفِ عام میں تہوار کہا جاتا ہے، ہر قوم کا مزاج تہوار منانے میں الگ ہو سکتا ہے، لیکن ایک بات سب میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے، وہ ہے ” خوشی منانا”،
دنیا میں جتنے بھی تہوار منائے جاتے ہیں،ان میں مذہبی اعتقادات ضرور شامل ہوتے ہیں، خود اسلامی تہوار میں بھی مذہبی عنصر کو بہت اہمیت حاصل ہے، البتہ اسلام نے دوسری اقوام کے تہواروں کی طرح اپنے اجتماعی خوشی کے ایام کو کسی اہم تاریخی واقعہ یا موسم کے ساتھ نہیں جوڑا، بلکہ حال ہی میں انجام دی جانے والی عبادت کے ساتھ مربوط کر دیا ہے ، تاکہ اس سے یہ سبق حاصل ہو کہ اصل خوشی منانے کا حق تو ان کاموں پر پہنچتا ہے جو کہ حال ہی میں تم نے انجام دیئے ہیں، محض ان کارناموں پر نہیں جو تمہارے آباء واجداد نے انجام دیے تھے،اسلام میں جشن یا تہوار کے دن صرف دو ہیں:
1)عید الفطر
2) عید الأضحی
یہ دو دن ایسے مواقع پر آتے ہیں کہ پوری امت ایک ایسی اجتماعی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتی ہے جو سال میں ایک بار انجام دی جاتی ہے۔
عید الفطر رمضان کے تربیتی دور کے بعد آتی ہے، جو روزے جیسی اہم عبادت کی تکمیل پر احساس تشکر کے اظہار کے لیے منائی جاتی ہے اور عید الأضحی حج کے مبارک ایام کے بعد قربانی کے لیے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ منورہ آئے تو اہل مدینہ کے ہاں دو دن مقرر تھے جس میں وہ کھیلتے اور خوشیاں مناتے تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان ایام کے بارے میں دریافت فرمایا، عرض کیا گیا کہ ہم جاہلیت کے زمانے سے یہ دن مناتے چلے آرہے ہیں،
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
” اﷲتعالیٰ نے تم کو اس کے بدلہ اس سے بہتر دو دن عطا کیے ہیں :
”عید الفطر اور عید الاضحی”
(مسند احمد:13210,250/3)

مذکورہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں غیر مسلم اقوام کے تہواروں کو اپنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیوں کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ہر وقت اپنے خالق کی اطاعت میں دیکھنا چاہتا ہے وہ انسان پر یہ واضح کرتا ہے کہ یہ وسیع تر کائنات اور خود انسان کا وجود کھیل کود اور دل لگی کے لیے نہیں کہ اسے بے کار تقریبات وتفریحات او رکھیل کود میں ضائع کر دیا جائے، غیروں کے تہوار منانے کی کوئی سبیل ہوتی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اہل مدینہ سے فرما دیتے کہ تم اس کے خراب امور ترک کردو اور ان کی اصلاح کر کے مناؤ، لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کلی طورپر ان سے نفرت کااظہار کرکے منع فرمادیا اور صرف دو اسلامی تہوار منانے ہی کی اجازت عنایت فرمائی ہے

نیو ائیر کا آغاز اور جشن
تاریخ میں نئے سال کا استقبال مختلف تاریخوں میں ہوتا رہا ہے، برطانیہ اور امریکا میں سترہویں صدی میں جنوری سے شروع ہونے والے کلینڈر کو اختیار کیا گیا،گویا جنوری کے پہلے دن کو نئے سال کے طور پر منایا جانے لگا، یہودی لوگ مخصوص کھانے پکانے کے ساتھ مذہبی تقریبات منعقد کرتے، جنوبی ایشیا کے لوگ پرندے آزاد کرتے، لیکن یہ ابتدائی بات تھی۔۔
انیسویں صدی کے شروع کی بات ہے کہ برطانیہ کی رائل نیوی کے جوانوں کا زیادہ حصہ تھکا دینے والے بحری سفروں میں گزرتا، تو وہ لوگ اپنی بوریت دور کرنے کے لیے جہازوں کے اندر اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کرتے رہتے، کبھی ایک دوسرے کی سال گرہ مناتے، کبھی کتوں بلیوں اور گھروں کی سال گرہ کرتے، ویک اینڈ مناتے، ایسٹر اور کرسمس کااہتمام کرتے، انہیں تقریبات کے دوران شیطان نے ایک نیا آئیڈیا ان کے ذہن میں ڈالا کہ نئے سال کی آمد پر بھی خوب تفریح ہونی چاہیے، لہٰذا اس سال 31 دسمبر کو سب ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔۔
رات دس بجے کے بعد خوب شراب پی ، رقص کیا اور ٹھیک بارہ بج کر ایک منٹ پرایک دوسرے کو جام پیش کیا اور نئے سال کی مبارک باد دی، یہ نیوائیر نائٹ کا آغاز تھا۔۔۔
پھر رفتہ رفتہ اس وقت بتیاں گل کرکے حیا سوز افعال کا ارتکاب کرکے مبارک بادی جانے لگی، آہستہ آہستہ یہ رسم ایک جہاز سے دوسرے جہازوں تک، پھر وہاں سے ساحل پر او رپھر پوری دنیا اس بے حیائی اور فحاشی کی رسم میں رنگ گئی اور بڑے بڑے شہروں میں فحاشی اور عریانی سے بھرپور تقریبات کا انعقاد ہونے لگا۔۔۔۔۔
نیو ائیر کی تقریبات نے پوری دنیا کی ثقافت پر گہرے اثر چھوڑے اس کی فحاشی عریانی اور بے حجابی کے جراثیم آہستہ آہستہ نوجوان نسل کی اخلاقیات کو چاٹ رہے ہیں جس سے بے حیائی آوارگی او رجنسی بے راہ روی عام ہو رہی ہے ہمارے ملک پاکستان میں بھی یا تو نوجوان اپنے من پسند جوڑے لے کر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں اپنے ایمان کو برباد کرتے ہیں اور جو وہاں نہیں جاسکتے وہ سڑکوں چوراہوں اور چوکوں پر آتش بازی، فائرنگ اور دیگر ایمان شکن اور حیا سوز افعال کے ساتھ نئے سال کا استقبال کرتے ہیں۔۔۔۔
اسلام نے تو جو کام جائز اور مباح ہیں ان میں بھی غیروں کے ساتھ مشابہت کو ناجائز قرار دیا ہے تو پھر شرعاً عرفاً اور عقلاً جو رسم ناجائز اورحرام ہو اس میں مشابہت مسلمان کے لیے کیسے درست ہو سکتی ہے ؟
لہٰذا نیو ائیر منانا، اس پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینا دوست احباب کو کارڈ بھجوانا سب ناجائز ہے اگر کوئی دوست کارڈ بھجوا بھی دے تو اسے واپس کرنا ایمانی تقاضا ہے۔۔

غیر مسلموں کے تہواروں کی مشابہت سے کیوں منع کیا گیا؟

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسری قوموں کی عادات، رسم ورواج ، طور طریقے او رمذہبی شعار اپنانے کو دائرہ اسلام سے نکل کر انہی کے مذہب کے دائر ے میں داخل ہونے کے مترادف قرار دیا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من تشبہ بقوم فھو منھم

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوا ۔‘‘
(ابو داؤد 4031)

کفار کے عقائد وعبادات اور اُن عادات واطوار میں مشابہت جو کہ اُن کی پہچان ہیں کسی طور پر بھی جائز نہیں اس کا نتیجہ بعض اوقات یہ نکلتا ہے کہ ایمان جیسی عظیم اور لازوال نعمت چھن جاتی ہے۔۔۔۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں غیروں کی نقالی کے ممنوع ہونے کی بہت ساری وجوہات ذکر کی ہیں اور اس پر تفصیلی کلام بھی کیا ہے،ان میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کر دینا مناسب ہے:

۱) کفار کی نقل اور پیروی کرنے سے آدمی خود بخود صراطِ مستقیم کی پیروی سے ہٹ جاتا ہے۔

۲) ان کی پیروی کرنے سے اُن کے قول وعمل سے ہم آہنگی اور قلبی موانست ومحبت پیدا ہو جاتی ہے ، جو سراسر ایمان کے منافی ہے۔

۳) کفار کی مشابہت پرجمے رہنے سے خود شریعت مطہرہ سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور ایمان کمزور سے کمزور تر ہوتا چلاجاتا ہے۔

٤) اُن کی بُری عادات وصفات بھی اچھی لگنے لگتی ہیں اور آوارگی، بے حیائی اور جنسی بے راہ روی عام ہو جاتی ہے۔

۵) مسلمانوں کی اس نقالی کو دیکھ کر کفار دلی خوشی محسوس کرتے ہیں او راپنے کفر پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

٦) کفار کے اعمال، عقائد، رسم ورواج اور جشن وتہوار سب کے سب برائیوں کا مجموعہ اور بھلائیوں سے یکسر خالی ہیں..

لہٰذا عقائد وعبادات اور جشن وتہوار میں غیر مسلم اقوام کی نقالی ناجائز وحرام ہے، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے شرعی عیدیں صرف دو قرار دی ہیں ،
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرمایا کرتے تھے :
اﷲ کے دشمنوں سے ان کی عیدوں( تہواروں) میں اجتناب کرو.

حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ کا قول ہے:
” جس نے مشرکین کے ملک میں گھر بنایا ان کے ” نوروز ومہرجان”(تہواروں) کے جشن منائے او راسی حالت میں موت آگئی تو قیامت کے روز انہی میں سے اٹھایا جائے گا۔”
( اقتضاء الصراط المستقیم: ص212)

خود احتسابی کی ضرورت
غورکیاجائے تونیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
کیوں کہ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سیل سے دی جاتی ہے ؛جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھل ہی جاتی ہے..

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:
دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت۔‘‘
(صحیح بخاری 6412 )

اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیں اور ان کو کبھی زوال نہیں انا جبکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔۔
جو رب کائنات ان عظیم نعمتوں سے نوازنے والا ہے وہ ان کو کسی وقت بھی چھین سکتا ہے لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔۔
تو پھر ہم سوچیں کہ جہاں ہم نے جانا ہے وہاں کے لیے ہم نے امسال کیا کچھ جمع کر کے بھیجا ہے ؟
تاکہ ہم اللہ تعالی کے ہاں اس کا بہتر بدلہ اور اجرو ثواب حاصل کر سکیں۔

کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جو نامہ اعمال کل قیامت کے دن ہمارے ہاتھوں میں تھمایا جائے گا ہم نے اس میں امسال کیا کچھ درج کروایا ہے ؟؟

کیا ہماری اس سال میں گناہوں کی تعداد زیادہ ہے یا نیکیوں کی ؟

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کی قبر کے جس گہرے اور اندھیرے گڑھے میں ہمیں رکھ کر بند کر دیا جائے گا،اسے روشن اور آرام دہ بنانے کے لیے ہم نے امسال کیا کچھ انتظام کر رکھا ہے ؟​

یاد رہنا چاہیے کہ وہاں مال ودولت،آل اولاد،دنیاوی عزت و شہرت اور زور و طاقت الغرض کسی قسم کے خارجی عوامل کچھ کام نہیں آئیں گے بلکہ وہاں صرف اور صرف خالصتاً ہمارا داخلی معاملہ ہوگا۔۔۔ لہٰذا اپنے کیے ہوئے اعمال سے ہی قبر اور آخرت کو منور اور آرام دہ بنانا ہوگا ۔
ہر شخص سوچے کہ میں نے امسال اپنی موت اور قبر کو کتنا یاد کیا ہے ؟
میں نے قرآن مجید کا کتنا حصہ تلاوت کیا ہے ؟

کیا ہر فرض نماز ادا کرنے کے بعد کچھ وقت اللہ تعالٰی کے ذکر و اذکار میں صرف کیا ہے ؟

کیا میں نے امسال تمام نمازیں مکمل طور پر خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی ہیں؟

کیا میں نے امسال اللہ تعالٰی سے اپنے لیے جنت کا سوال کیا ہے ؟

اور کیا امسال میں جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے اللہ تعالٰی سے پناہ کا خواستگاہ ہوا ہوں ؟

کیا میں نے امسال اپنے نفس کی شرارتوں اور گناہوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالٰی سے درخواست گزار ہوا ہوں؟؟

کیا میں امسال ہر اس کام سے کنارہ کش رہا ہوں جس سے اللہ رب العزت ناراض ہوتے ہیں ؟

کیا مین نے امسال اپنے بُرے دوستوں سے دور رہنے کے بارے میں کچھ غور و فکر کیا ہے کہ ان سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے یا ان کی اصلاح کیسے کی جائے ؟

کیا میں نے امسال اپنے دل کو تکبر ، حسد بغض کینے اور ہر قسم کی منافقت سے پاک رکھا ہے ؟

کیا میں نے امسال اپنی زبان کو چغلی غیبت اور جھوٹ سے محفوط رکھا ہے ؟

کیا میں نے امسال ہر وہ چیز دیکھنا چھوڑے رکھی تھی کہ جس کا دیکھنا اللہ تعالٰی نے میرے لیے حرام کیا ہوا ہے ؟

کیا میں نے امسال ہر وہ آواز سننا بند کیے رکھی تھی جو کہ اللہ تعالٰی نے میرے لیے حرام کی ہوئی ہے ؟

کیا میں نے امسال امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کوئی کام کیا ہے ؟

کیا میں نے امسال دین اسلام کی مدد و نصرت کی خاطر اپنی ہر سستی اور مہنگی چیز وقف کہ ہوئی ہے ؟

ہر شخص یہ سوال اپنے ہی دل سے پوچھے تاکہ وہ اس انداز سے اپنے آپ کا خود محاسبہ کرے اور اپنے سفر آخرت کے لیے اپنی ہمت و طاقت کے مطابق زیادہ سے زیادہ زادِراہ جمع کر
ارشاد ربانی ہے
وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ
(سورة الحشر آیت18 )
اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل (قیامت) کے لیے کیا سامان بھیجا ہے ؟

اس لئے ضرورت ہے اس بات کی کہ سال نو کا آغاز غیر شرعی طریقہ پر کرنے سے گریز کیا جائے اور اس موقع پر جو خلاف شریعت کام انجام دیے جاتے ہیں، فضول اور لایعنی امور اختیار کئے جاتے ہیں جو ناشائستگی اور بد اخلاقی کے مظاہرے ہو تے ہیں، عیسائیوں کے طریقہ کے مطابق جو نیو ائیر کا استقبال کیا جاتا ہے کیک کاٹ کر اور مبارک بادیں دے کر جو اپنی تہذیب کا مذاق اڑایا جا تا ہے اسی طرح شور و شغب اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی جو حرکتیں کی جاتی ہیں ان تمام چیزوں سے مکمل اجتناب کیا جائے، اپنے آپ کو ان تمام امور سے روکا جائے، اسلامی تعلیمات سے اپنی اولاد کو آگاہ کریں اور اسلامی سال نو کا تعارف اور ماہ وسال کی یہ انقلاب انگیز تبدیلی سے حاصل ہونے پیغامات سے واقف کرائیں ورنہ ہماری آنے والی نسلیں دین کی تعلیمات سے بے بہرہ ہو کر عیسائی تہذیب و کلچر کی دلدادہ بن کر اور مغربی طریقہ زندگی ہی میں کامیابی تصور کر کے پروان چڑھے گی۔

 کامران الہیٰ ظہیر