ڈل جِھیل کے کناروں پر اگے کنول کے پھولوں کی اداسی کئی برسوں پر محیط ہے، صفا پور کی بیضوی شکل کی مانسبل جِھیل کے نواح میں لہلہاتی دھان کی فصلوں سے اٹھتی جاں فزا مہک کی افسردگی کو کئی برس بِیت چلے، ساڑھے پندرہ ہزار فٹ کے بلندو بالا کوہ سار پر واقع شوپیاں کی کوثر ناگ جِھیل کی سحر انگیز دل کشی، نہ صرف سفاک بھارتی فوج کے حصار میں مقید ہے بلکہ وہاں سلطان زین العابدین کی تعمیر کردہ مسجد کے نشانات بھی معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔وادیوں کی شہزادی کی محبوس اور مغموم فضاؤں میں بلبلوں اور قمریوں کے سُروں کی غنائیت، بھارتی جبر و استبداد سے رہائی کی منتظر ہیں، سری نگر میں گُلِ لالہ کے حُسن جمال سے آراستہ طویل سلسلوں اور زعفران کے پھولوں کی شوخ و شنگ اٹکھیلیوں کو بھارتی فوج مسلسل نوچ رہی ہے۔مقبوضہ وادی کی آبشاریں اداس، جِھیلیں مغموم، دریا پژمردہ اور کھیت کھلیان افسردہ ہیں۔چنار وادی کے چہار اطراف قدغنوں بندشوں اور اداسیوں کے ڈیرے ہیں۔آگ اور بارود نے تمام فضاؤں کو مسموم کر ڈالا ہے۔
دنیا کی سب سے دل رُبا اور دل نشیں وادی کی فضاؤں میں اٹھتی گھنگور گھٹاؤں میں آگ اور بارود کی بُو گھولنے میں بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ( این آئی اے ) کا منحوس کردار سب سے زیادہ گھناؤنا ہے۔این آئی اے اِس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ یاسین ملک کو موت کی سزا دلوا کر آزادی کے جنوں خیز جذبات کو نڈھال کیا جا سکتا ہے، این آئی اے کے دماغ میں رینگتی اور کلبلاتی ایسی سوچ اور فکر، مقبوضہ وادی کے ماضی اور حال کے سَر چڑھ کر بولتے حقائق کے خلاف ہے۔اہلِ کشمیر کی تحریکِ آزادی کے ساتھ مہر و وفا کی شدت اور حدت سے بے خبر بھارتی ایجنسی اِس خیالِ باطل میں مبتلا ہو چکی ہے کہ عدالت سے عمر قید کی سزا کو موت کی سزا میں تبدیل کروا کر یاسین ملک کے دل میں موجزن شمعِ آزادی کی لَو مدھم پڑ جائے گی یا آزادی کی تحریک کے متوالوں کی شوریدہ سَری، مبہم جذبوں میں ڈھل جائے گی تو یہ بھارت اور اس کے خفیہ اداروں کی سب سے بڑی ایسی غلط فہمی ہے کہ آنے والے دنوں میں جس کی بڑی بھیانک سزا بھارتی سرکار کو بھگتنا پڑ سکتی۔این آئی اے کے وکیل تشار مہتا کا عدالت سے یاسین ملک کی پھانسی کے مطالبے پر زلمے خلیل زاد مہر بہ لب ہے، اب اسے انسانی حقوق پر بھارتی ڈاکے دِکھائی کیوں نہیں دے رہے؟
انا اور خودی کا پیکر یاسین ملک یہ کَہ چکا ہے کہ وہ عدالت سے رعایت کی بھیک نہیں مانگے گا، اس نے جج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا کہ ” اگر آزادی مانگنا جرم ہے تو مَیں یہ جرم اور اِس کے نتائج قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔خدانخواستہ یاسین ملک کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو بھارت یاد رکھے کہ آزادی کی راہوں میں شہید ہونے والا یہ کوئی پہلا شخص نہیں ہو گا، اِس سے قبل مقبول بٹ کی پھانسی کے بعد کیا تحریکِ آزادی کم زور پر گئی تھی؟ کیا افضل گورو کو موت کی سزا دے کر شمعِ آزادی کی کوئی ایک کرن بھی بجھائی جا سکی تھی؟ ایک لاکھ سے زائد شہدا کی قربانیاں اِس بات کا لٹھ بردار ثبوت ہیں کہ قتل، غارت گری، قدغنوں اور پھانسیوں سے آزادی کی جگمگاتی تحریکوں کو مزید توانائی اور رعنائی ہی ملا کرتی ہیں۔قربانیوں سے تو آزادی کی راہوں کو ایسی جِلا اور تابانی ملتی ہیں کہ جو منزل تک پہنچنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔بھارتی سرکار کے منہ کو کشمیری مسلمانوں کا خون لگ چکا ہے، اب وہ یاسین ملک کا خون پینا چاہتی ہے، اُسے سول رائٹس نہیں دیے جا رہے، اُس پر تھرڈ ڈگری تشدّد کیا جا رہا ہے، اُسے عدالتوں میں پیش کرنے میں شدید غفلت برتی جاتی ہے، جو بھی اُس کی وکالت کے تیار ہوتا ہے، اُسے شدید خوف زدہ کر دیا جاتا ہے، سو وہ خود ہی اپنے کیس کا وکیل ہے، اُس کی بیوی اور بیٹی کے ملنے پر بھی پابندی ہے۔آفرین ہے اُس شخص کے آہنی عزم و استقلال پر کہ جس نے اپنی ساری خوشیاں اپنی سر زمین پر تج ڈالیں۔جگر مراد آبادی نے کہا تھا:-
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
بھارت نے ایسی بے اعتبار رُتیں مقبوضہ وادی میں جھونک دی ہیں کہ کسی بھی وقت ان دل افروز فضاؤں میں آہیں اور سسکیاں گھل جاتی ہیں، 2016 ء کو آنکھوں سے محرومی کا سال قرار دیا گیا تھا اِس لیے کہ اُس برس سیکڑوں کشمیریوں پر چھرّوں والی گنوں کا استعمال کر کے اُن کی بینائی چھین لی گئی تھی۔کشمیری لوگ اپنے بیٹے کٹوا اور سپنے لٹوا چکے ہیں، اُن کے آنگنوں میں ہمہ وقت خوف و ہراس کے کھٹکے اور دھڑکے لگے رہتے ہیں کہ جانے کب بھارتی فوج اسلحہ تان کر ان کی آسودگیوں کو غارت کر ڈالے۔آج ڈل جھیل اداس ہے، مانسبل جھیل مغموم اور بے قرار ہے، کوثر ناگ جھیل کے کنارے غمگین اور افسردہ ہیں، کہ کب آزادی کا سورج طلوع ہو گا؟ اختر شیرانی کا شعر ہے:-
اِنھی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے