بالیاں کچھ عرصہ قبل تک صرف لڑکیوں کے کانوں کی زینت ہُوا کرتی تھیں، معلوم نہیں کہ پھر کیسی تبدیلی کی تند و تیز ہوائیں چلیں کہ نسوانیت کی علامت اور صنفِ نازک کے چہرے کی دل کشی بننے والی بالیاں، چھچھورے لڑکوں کے کانوں کا زیور بن گئیں۔ابھی چند سال قبل تک ہاتھوں کے کنگن بھی عورتوں کی نازک کلائیوں کے زیب و جمال ہُوا کرتے تھے مگر اب کھلنڈرے لڑکے بھی اپنے ہاتھوں میں کنگن پہن کر اتراتے پھرتے ہیں۔تمام والدین دعائیں مانگتے ہیں کہ” اللہ ہمیں بیٹا عطا فرما “ پیدا بھی بیٹا ہی ہو جاتا ہے مگر جوانی کی دہلیز پر قدم رنجہ فرماتے ہی یکایک اس بیٹے کے جذبات اور خیالات میں یہ” انقلابی “ بھونچال رُونما ہونے لگتا ہے کہ وہ اپنی شکل و صورت لڑکیوں جیسی بنانے کی شروعات کرنے لگتا ہے اور پھر بالیاں، کانٹے اور کنگن اس کا زیور بننے لگتے ہیں، اب تو لڑکوں سے سَر کے بال بڑھا کر پونیاں کرنا بھی شروع کر دی ہیں۔آج جن والدین کے بیٹے اس زنانہ حُلیے میں پھرتے نظر آتے ہیں وہ ذرا سوچیں کہ کیا انھوں نے ایسے بیٹے کی پیدایش کے لیے اللہ کے حضور رو رو کر دعائیں مانگی تھیں کہ بیٹا شکل و صورت اور عادات و خصائل سے بیٹا بننے پر آمادہ ہی نہیں۔لڑکیوں جیسی شکل بنانے کے ہر طریقے کو ایک فیشن بنا لیا گیا ہے۔آپ ان منچلے لڑکوں کے کپڑے دیکھ کر بھی دنگ رہ جائیں گے کہ نقشے دبکے کی کڑھائی والے شوخ و شنگ رنگوں سے مزیّن دِکھائی دیں گے۔بِعَینہٖ برقع، حجاب اور سکارف باحیا اور عفت مآب لڑکیوں کے حفاظتی حصار کی علامت ہُوا کرتا تھا مگر اب اسے قدامت پرستی سے تعبیر کر کے لڑکیوں نے لڑکوں کی شباہت اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ڈاڑھی، برقع، حجاب اور سکارف کو آج مسلمانوں کی اکثریت نے غیر اَہَم سمجھ کر اس سے بے رغبتی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ظفر اقبال ظفر کا شعر ہے۔
تہذیب ہی باقی ہے نہ اب شرم و حیا کچھ
کس درجہ اب انسان یہ بے باک ہُوا ہے
ایک بھارتی مسلمان طالبہ کا حجاب سارے بھارتی ہندوؤں کو برداشت نہیں ہو رہا تو سوچیے! کہ حجاب میں کوئی تو ایسی خاص بات ہے جو آج عالَمِ کفر کو ہضم نہیں ہو رہی۔اگرچہ آج ڈاڑھی اور حجاب سے مسلمانوں کا مجموعی رویّہ پھیکا اور رُوکھا ہو چکا ہے مگر ایسے مسلمانوں کو شاید معلوم نہیں کہ عالَمِ کفر کے لیے یہ چیزیں کسی ہتھیار اور تلوار سے کم ہرگز نہیں ہیں، اسی لیے مغرب، یورپ اور امریکا، حجاب اور ڈاڑھی پر اعتراض کرتے ہیں۔
چِین کے ایک صوبے کا نام سنکیانگ ہے، اس کے ایک علاقے کرامے میں حکام نے ڈاڑھی والے نوجوانوں، برقع، حجاب اور سکارف پوش خواتین پر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر اگست 2015 ء میں پابندی عائد کر دی تھی۔کرامے میں سالانہ میلہ لگتا ہے، اس لیے وہاں پانچ طرح کے لوگوں پر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر قدغن لگا دی گئی تھی، برقع پوش، نقاب پوش، سکارف پہننے والی خواتین، ڈاڑھی والے مَرد اور اسلامی نشانیاں پہنے ہوئے مسافروں پر اس پابندی کو نافذ کر دیا گیا تھا۔ان پانچ نشانیوں میں سے کوئی ایک علامت بھی ایسی نہیں جس کا انطباق اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب پر ہوتا ہو۔برقع، ڈاڑھی اور سکارف امن و امان کو کس طرح تاراج اور تتربتر کرتے ہیں؟ یہ بات بعید از عقل ہے، البتہ جن لوگوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق بغض و عناد ہو، اُن کے دلوں میں برقع اور ڈاڑھی کو دیکھ کر ایک زور دار گھونسا ضرور لگتا ہے۔
انتہائی افسوس ناک المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ڈاڑھی اور حجاب کو قرون اُولیٰ کی کارروائی سمجھتی ہے، جب کہ اس مسئلے پر عالَمِ کفر انتہائی سنجیدہ اور سیخ پا ہے، ان کی پارلیمنٹس میں برقعے کے خلاف آئین سازی کی جاتی ہے، بلجیئم، فرانس اور یورپی یونین کی آنکھوں میں برقع کسی تلوار کی مانند کھب کر رہ گیا ہے۔دیکھ لیجیے! آج یوکرائن کو آتش و آہن میں جھونک کر تباہ و برباد کر دینے والے روس کے فوجیوں کے چہروں پر نہ ڈاڑھی ہے اور ان کی عورتیں حجاب کرتی ہیں۔
پردہ اور حجاب اللہ ربّ العزّت نے فرض قرار دیا ہے۔سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 59 میں ارشاد ہے کہ” اے نبیؐ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور ایمان والی عورتوں کو کَہ دو کہ اپنے اوپر چادر کے پَلّو لٹکا لیا کریں“
ابوداؤد کتاب اللباس میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد جب انصاری خواتین باہر نکلتیں تو ایسے لگتا کہ جیسے اُن کے سَروں پر کوّے بیٹھے ہیں، ان سیاہ پردوں کی وجہ سے جسے وہ اپنے اوپر لیتی تھیں۔آج برقعے سے اس قدر کد اور عناد کی وجہ یہی ہے کہ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حجاب میں موجود جو خاتون ہے وہ مسلمان ہے۔مسلمان خواتین کی یہ الگ سے شناخت، پہچان اور انفرادیت عالَمِ کفر کے پیٹ میں کھلبلی مچا دیتی ہے۔ان کی خواہش ہے کہ مسلمان مَرد ہوں یا خواتین ان کی ایسی منفرد شناخت ہرگز نہیں ہونی چاہیے، جس سے اسلام کی کرنیں پھوٹتی ہوں، جس سے اسلام کا تشخّص اجاگر ہوتا ہو، اسی لیے 2009 ء میں فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے برقعے پر طعن کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے خواتین کا وقار کم ہو جاتا ہے، حالاں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
بالیاں، برقع، حجاب اور بالوں میں پونیاں، یہ سب عورتوں کا خاصہ ہیں اور عورتوں کا حُسن و جمال ہیں مگر یہ نوجوان لڑکوں کو کیا ہو چلا کہ عورتوں کے زیورات ان کے جسموں پر سجنے لگے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عورت کی مشابہت کرنے ولے مَردوں اور مَردوں کی نقل اتارنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔(بخاری 332)
اسی طرح ایک اور حدیث میں سیّدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیِ مکرّمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے اس مَرد پر لعنت کی ہے جو عورتوں جیسا لباس پہنے اور اس عورت پر لعنت کی ہے جو مَردوں جیسے کپڑے پہنتی ہے۔
(ابوداؤد 355)
اگر لڑکی بننے کا شوق اسی طرح لڑکوں میں ٹھاٹھیں مارتا رہا تو ممکن ہے کہ نوجوان لڑکے، عورتوں کی طرح برقع اور حجاب بھی پہننا شروع کر دیں۔
ڈاڑھی اور برقعے کو صرف اغیار نے تماشا نہیں بنایا بلکہ کچھ ناسمجھ مسلمان بھی اس تماشے میں شریک ہیں۔ایسے میں بھارتی مسلمان لڑکی کا حجاب پوری مسلم اُمّہ کے لیے ایک نشاط انگیز ہَوا کا جھونکا ہے۔وحشتوں میں گِھری مسکان کے جراَت آفریں کردار کو دیکھ کر فراغ روہوی کا شعر یاد آ رہا ہے۔
ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا
دشتِ وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں